ایک سال ہونے کو آیا تھا اُس حادثے کو جو ہمارے سفر کے دوران پیش آیا۔ ہم شمالی اسپین کی پہاڑی سڑکوں سے گزر رہے تھے کہ گاڑی پھسل گئی۔ خوش قسمتی سے کسی کو کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا، مگر اس دن کی یاد میرے دل میں آباد رہی۔ میرے والد اب بھی خود کو قصوروار سمجھتے ہیں، حالانکہ غلطی ان کی نہ تھی۔ میں نے ان سے ایک اور بات بھی چھپا رکھی تھی—وہ عجیب خواب جو حادثے کے دن سے مجھے ہر رات تنگ کرتے آئے ہیں۔
شروع میں میں نے سمجھا یہ صرف حادثے کا صدمہ ہے، مگر وقت کے ساتھ وہ خواب اتنے حقیقی محسوس ہونے لگے کہ نیند کے باوجود تھکن بدن میں بسی رہتی۔
“سب سے زیادہ جو خواب بار بار آتا ہے…” میں نے ماہرِ نفسیات کو بتایا، “اس میں میں ایک پرانے، کئی منزلہ بڑے گھر کے کمرے میں لیٹا ہوتا/ہوتی ہوں۔ دروازہ کھلا ہوتا ہے اور باہر ایک خوبصورت سیڑھیوں والا ہال نظر آتا ہے۔ کونے میں جلتا ہوا انگیتھی کا الاؤ ہے، جو کبھی گرم تو کبھی حد سے زیادہ تپتا محسوس ہوتا ہے۔”
“اکثر خواب میں لگتا ہے کہ میں کھلی ہوا میں جانا چاہتی ہوں، مگر جیسے ہی بستر چھوڑنےلگتی ہوں، دل خوف سے پکڑ لیتا ہے۔ اور کبھی کبھی عجیب سے اوزار لیے لوگ میرے گرد نظر آتے ہیں۔ وہ جیسے ہی میری طرف بڑھتے ہیں، خواب ختم ہو جاتا ہے اور میں پسینے میں بھیگا جاگ اٹھتا/اٹھتی ہوں۔ سینے میں شدید درد ہوتا ہے—بالکل وہیں جہاں حادثے کے بعد نشان ہے۔”
ڈاکٹر نے نرمی سے کہا، “کبھی کبھی ہمارا ذہن خود کہانیاں بناتا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہے کہ تمہارا ذہن یہ منظر کیوں پیدا کر رہا ہے۔”
میں نے ہچکچاہٹ کے ساتھ بتایا، “ایک شخص بھی اکثر نظر آتا ہے۔ وہ خوبصورت نہیں، زیادہ بات بھی نہیں کرتا۔ مگر اُس کی بھوری آنکھیں… بہت نرم، بہت محبت بھری ہوتی ہیں۔ ویسی ہی جیسے میرے والد اپنی ماں کو دیکھتے تھے۔ میں نے ہمیشہ چاہا کہ کوئی مجھے بھی کبھی ایسے دیکھے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ میں اُس شخص کو جانتا/جانتی نہیں۔ کبھی زندگی میں دیکھا نہیں۔”
چند دن تک مجھے کوئی خواب نہ آیا۔ عجیب طور پر سکون کے ساتھ ہلکی سی اداسی بھی محسوس ہوئی—جیسے کوئی مانوس سایہ دور جا چکا ہو۔ دل بہلانے کے لیے میں اٹلی کے ایک نوجوان فوٹوگرافر کی تصویروں کی نمائش دیکھنے چلا/چلی گیا۔ تصویریں خوبصورت تھیں—اور پھر مجھے احساس ہوا کہ کوئی مجھے گھور رہا ہے۔
میں نے پلٹ کر دیکھا—ایک لڑکی۔ وہی لڑکی جو فوٹوگرافر کی تمام تصویروں میں نظر آتی تھی۔
“میں کیمی ہوں,” اُس نے کہا، “اور میں تمہیں ڈھونڈ رہی تھی۔”
وہ مجھے اپنے دفتر لے گئی۔ وہاں اس نے ایک سو سال پرانی تصویر دکھائی۔ تصویر میں ایک عورت تھی—اور اس کے نقش میری ہی طرح کے تھے۔ وہ بولی:
“یہ تم نہیں… مگر تمہاری پچھلی زندگی ہو سکتی ہے۔”
میں نے ہنس کر بات کو ٹالنا چاہا، مگر جب اس نے وہ پرانا ڈائری نما رجسٹر میرے ہاتھ میں تھمایا، تو صفحوں کے درمیان ایک تصویر گری۔
کپڑے، چہرہ، وہی بھوری آنکھیں۔ وہی خاموش محبت۔
کیمی نے بتایا کہ وہ وینس کے ایک پرانے محل میں رہتا تھا، اور اپنی بیمار بیوی سے شدید محبت کرتا تھا۔ وہ بیوی کھلی ہوا سے ڈرتی تھی، وہی خوف جو میرے خوابوں میں تھا۔ وہی انگیتھی، وہی کمرہ، وہی خوفناک علاج—سب کچھ ویسا ہی۔
ڈائری کے چند حصے اس نے میرے لیے ترجمہ کیے:
“…آج میری شادی کو ایک مہینہ ہوا۔ اس کی بیماری بڑھتی جا رہی ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کھڑکیاں نہ کھولو، مگر میں دیکھ سکتا ہوں کہ اسے سانس لینے میں تکلیف ہے۔ کاش میں اس کے لیے ہوا کھول سکتا…”
“…آج اس نے پہلی بار مسکرا کر مجھے دیکھا۔ میں نے جان بوجھ کر دوبارہ غلطی کی تاکہ وہ پھر مسکرائے…”
“…آج میں نے اس کے کمرے کی بالکونی کھول دی۔ ہوا آئی، اس نے گہرا سانس لیا، آنکھیں بند کیں اور کہا: یہ خوشبو… ہائڈرینجیا کے پھولوں کی ہے…”
میں یہ الفاظ جہاز میں بیٹھے پڑھتا/پڑھتی رہی۔ پھر خود کو وینس کی گلیوں میں پایا۔ میری ٹانگیں خود بخود اُس پرانے محل کی طرف بڑھی جہاں کبھی وہ رہتا تھا۔
میں نے اس کی ڈائری اپنے ہاتھوں میں تھامی، اس کی تصویر کو دیکھا اور دھیرے سے کہا:
“مجھے یاد آگیا…”
ایک سال گزر چکا تھا اُس حادثے کو، جو ہمارے شمالی اسپین کے پہاڑی راستوں پر پیش آیا۔ میں اور میرا خاندان چھٹیاں گزارنے نکلے تھے، لیکن ایک پل کی غیر توجہ نے سب کچھ بدل دیا۔ خوش قسمتی سے کسی کو شدید نقصان نہیں ہوا، مگر اس دن کی یاد میرے دل میں ہمیشہ کے لیے رہ گئی۔
میرے والد اب بھی خود کو قصوروار سمجھتے ہیں، حالانکہ حادثہ ان کی غلطی نہیں تھی۔ میں نے ان سے ایک اور راز چھپایا ہوا تھا—وہ خواب جو میں نے حادثے کے دن سے ہر رات دیکھے، اور جو آج تک مجھے پریشان کرتے آئے ہیں۔ خواب اتنے حقیقی لگتے کہ نیند کے باوجود میری روح تھک جاتی، اور میں محسوس کرتا/کرتی کہ جیسے میں نے رات بھر کچھ بھی نہیں سویا۔
میں نے آخر کار حوصلہ کیا اور ایک ماہر نفسیات سے ملاقات کی، تاکہ یہ سمجھ سکوں کہ یہ خواب محض پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس کے اثرات ہیں یا کچھ اور۔
خوابوں کی دنیا
“سب سے زیادہ جو خواب بار بار آتا ہے، وہ یہ ہے…” میں نے بتایا، “میں ایک پرانے، کئی منزلہ محل کے کمرے میں لیٹا ہوتا/ہوتی ہوں۔ دروازہ کھلا ہوتا ہے اور باہر ایک خوبصورت سیڑھیوں والا ہال دکھائی دیتا ہے۔ کونے میں انگیتھی جل رہی ہوتی ہے، کبھی گرم، کبھی حد سے زیادہ۔ اور میں ہمیشہ محسوس کرتا/کرتی ہوں کہ مجھے بالکونی میں جانا ہے، تازہ ہوا کے لیے۔ مگر جیسے ہی بستر چھوڑنے لگتا/لگتی ہوں، ایک خوف میرے دل کو گھیر لیتا ہے۔”
“کبھی کبھی خواب میں لوگ میرے گرد آتے ہیں، عجیب اوزار لیے، اور جیسے ہی قریب آتے ہیں، خواب ختم ہو جاتا ہے۔ میں پسینے میں بھیگا جاگ اٹھتا/اٹھتی ہوں، اور سینے میں شدید درد محسوس ہوتا ہے—بلکل اسی جگہ جہاں حادثے کے بعد زخم ہے۔”
ڈاکٹر نے نرمی سے کہا، “کبھی کبھی ہمارا ذہن کہانیاں بنا دیتا ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ تمہارا ذہن یہ منظر کیوں پیدا کر رہا ہے۔”
میں نے ہچکچاہٹ کے ساتھ بتایا، “ایک شخص بھی اکثر خواب میں آتا ہے۔ وہ زیادہ بات نہیں کرتا، مگر اس کی بھوری آنکھیں محبت اور شفقت سے بھری ہوتی ہیں۔ میں نے ہمیشہ چاہا کہ کوئی مجھے بھی ایسے دیکھے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ میں اسے زندگی میں کبھی نہیں ملا۔”
خواب میں محبت
کچھ دن تک مجھے کوئی خواب نہ آیا۔ پہلی بار چند روز بعد سکون ملا، مگر دل میں اداسی بھی چھپی تھی—جیسے کوئی مانوس سایہ دور جا چکا ہو۔
تھوڑا دل بہلانے کے لیے میں اٹلی کے ایک نوجوان فوٹوگرافر کی نمائش دیکھنے چلا/چلی گیا۔ تصویریں خوبصورت تھیں، اور میں ہر تصویر میں ایک عجیب کشش محسوس کر رہا/رہی تھا۔ پھر مجھے احساس ہوا کہ کوئی مجھے گھور رہا ہے۔
میں نے پلٹ کر دیکھا—وہی لڑکی جو فوٹوگرافر کی تمام تصویروں میں نظر آتی تھی۔
“میں کیمی ہوں,” اُس نے کہا، “اور میں تمہیں ڈھونڈ رہی تھی۔”
وہ مجھے اپنے دفتر لے گئی۔ وہاں اس نے ایک سو سال پرانی تصویر دکھائی۔ تصویر میں ایک عورت تھی—اور اس کے نقش میری ہی طرح کے تھے۔ وہ بولی:
“یہ تم نہیں… مگر تمہاری پچھلی زندگی ہو سکتی ہے۔”
پچھلی زندگی کی کہانی
کیمی نے مجھے ایک پرانی ڈائری بھی دکھائی۔ اس ڈائری میں لکھا تھا کہ کس طرح ایک شخص—میرا پچھلا شوہر—اپنی بیوی سے اتنی محبت کرتا تھا کہ اُس نے محل میں ہر قدم اس کے سکون کے لیے اٹھایا۔ کھڑکیاں بند کرنے کا خوف، انگیتھی، ڈاکٹر اور ان کے اوزار—سب کچھ اب میرے خواب کی وضاحت میں آ گیا۔
ڈائری کے کچھ اقتباسات:
“…آج میری شادی کو ایک مہینہ ہوا۔ اس کی بیماری بڑھتی جا رہی ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کھڑکیاں نہ کھولو، مگر میں دیکھ سکتا ہوں کہ اسے سانس لینے میں تکلیف ہے۔ کاش میں اس کے لیے ہوا کھول سکتا…”
“…آج اس نے پہلی بار مسکرا کر مجھے دیکھا۔ میں نے جان بوجھ کر دوبارہ غلطی کی تاکہ وہ پھر مسکرائے…”
“…آج میں نے اس کے کمرے کی بالکونی کھول دی۔ ہوا آئی، اس نے گہرا سانس لیا، آنکھیں بند کیں اور کہا: یہ خوشبو… ہائڈرینجیا کے پھولوں کی ہے…”
وینس کا سفر
میں نے یہ سب پڑھتے ہوئے خود کو وینس کی گلیوں میں پایا۔ میری ٹانگیں خود بخود اُس محل کی طرف بڑھیں جہاں وہ رہتا تھا۔ جب میں نے دروازہ کھولا، تو یادیں میرے دل میں لوٹ آئیں۔ دیوار پر لگی پرانی تصویروں میں وہ موجود تھا۔
میں نے اس کی ڈائری اپنے ہاتھوں میں تھامی، اس کی تصویر دیکھی، اور دھیرے سے کہا:
“مجھے یاد آگیا…”
ایک نرم ہوا نے میرے چہرے سے آنسو پونچھے، اور میں جان گیا کہ وہ واقعی میرے ساتھ ہے—میری پچھلی زندگی کے عشق کی موجودگی میں۔
اگلے اقدامات
میں نے طے کیا کہ میں اس محل میں کچھ دن قیام کروں گا، اور ہر روز اُس کی ڈائری پڑھوں گا، تاکہ اپنی پچھلی زندگی کے راز سمجھ سکوں اور خوابوں کے خوف سے آزاد ہو سکوں۔ ہر صفحہ، ہر لفظ، ہر محبت بھری آنکھ کی جھلک میرے دل کو سکون اور حیرت کے ساتھ بھر دیتی۔
اب میں جانتی ہوں کہ خواب صرف خوف یا صدمے کا نتیجہ نہیں، بلکہ ایک پرانی محبت کی یاد ہے، جو صدیوں بعد بھی دل میں زندہ ہے۔

Post a Comment for ""اپنی اگلی زندگی میں مجھ سے ملنے آنا۔""