Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

"پہاڑوں کی خاموش گواہی"



دفتر کی گھڑی جیسے آج کچھ زیادہ ہی سست رفتار تھی۔ لنچ بریک کا اعلان ہونے میں ابھی چند منٹ باقی تھے، مگر ذہن کہیں اور بھٹکا ہوا تھا۔ جب مینجر نے بالآخر “پندرہ منٹ کا وقفہ” کہہ کر ہماری طرف دیکھا تو پورے فلور پر جیسے ایک ہلکی سی خوشی پھیل گئی۔ میں نے اپنا دوپٹہ ٹھیک کرتے ہوئے موبائل اٹھایا اور باہر کی طرف قدم بڑھائے۔ سامنے ہی آمنہ اور زارا کھڑی تھیں، دونوں ہمیشہ کی طرح مصروف گفتگو میں۔

“نوشین، جلدی کرو۔ ہم پچھلے کیفے جا رہے ہیں۔ چائے آج ہماری طرف سے!” آمنہ نے ہاتھ ہلاتے ہوئے کہا۔

میں ہنستے ہوئے ان کے ساتھ چل پڑی۔ اسلام آباد کی سرد ہوا میں دسمبر کی خوشبو رچی تھی، اور دوپہر کا سورج بلند مگر نرم تھا۔ ابھی ہم تینوں سڑک پار کر ہی رہے تھے کہ زارا حسبِ عادت گفتگو میں کود پڑی۔

“آمنہ، وہ… ولید کے بارے میں تم نے بات کی یا ابھی تک نہیں؟”

آمنہ نے ناک سکوڑ لی۔

“میں کیوں بات کروں؟ اگر وہ خود سمجھ دار ہوتا تو اب تک اپنی زندگی سنبھال چکا ہوتا۔ ابھی بھی لڑکیوں کے پیچھے… اور خود کو بچے کہتا ہے۔ ستائیس سال کی عمر ہو گئی ہے، کچھ تو سوچے!”

میں نے ہنستے ہوئے کہا، “بس رہنے دو۔ بڑے بھائیوں کی زندگی میں تم دونوں کا مشورہ ہمیشہ بم کی طرح ہوتا ہے۔”

“ہم مشورہ نہیں دیتے، حقیقت بتاتے ہیں!” زارا نے فخر سے کہا۔

کیفے کا چھوٹا سا برآمدہ دھوپ سے گرم تھا۔ ہم تینوں وہاں بیٹھ کر چائے پینے لگیں، اور حسبِ روایت آمنہ نے ولید کے مشہور قصے شروع کر دیے۔ میں ان کی باتیں سنتے ہوئے بیرونی منظر دیکھ رہی تھی۔ پاس ہی درختوں پر ہلکی دھوپ پڑ رہی تھی، اور ایک مخصوص خاموشی ماحول میں پھیل رہی تھی۔ معلوم نہیں کیوں — مگر مجھے لگا جیسے یہ خاموشی مجھے کہیں بہت دور لے جا رہی ہے۔

چائے ختم ہوتے ہی زارا نے تجویز دی کہ باقی بریک ہم پاس ہی موجود چھوٹے بوتیکس میں گزاریں۔ جیسے ہی ہم پہلی دکان میں داخل ہوئیں، ایک پُرسکون میوزک نے پورے ماحول کو بھگو دیا۔ اسٹور میں چلنے والی دھن نے نہ جانے کب میرے دل کے کسی گوشے میں روشنی سی کر دی۔

میں بے اختیار ٹھٹھک گئی۔

آمنہ نے فکر سے پوچھا، “نوشین، طبیعت تو ٹھیک ہے؟”

میں نے دھیرے سے سر ہلایا۔

“یہ دھن… یہ مجھے دور لے گئی۔ کیا تم دونوں کو یاد ہے جب ہم تین سال پہلے ہنزہ گئے تھے؟ اور گلگت سے آگے نکل کر عطاء آباد جھیل تک رک رک کر فوٹو لیتے رہے تھے؟”

دونوں کے چہروں پر ایک ہی لمحے میں مسکراہٹ آ گئی۔

“وہ سفر!” زارا نے آنکھیں موندتے ہوئے کہا، “ابھی بھی سوچوں تو دل کسی اور دنیا میں چلا جاتا ہے۔”

میں قریب رکھے بنچ پر بیٹھ گئی، آنکھوں میں شفاف روشنی تیرتی محسوس ہوئی — جیسے یادیں ابھی چھلک کر باہر آ جائیں گی۔ آمنہ بھی میرے پاس آکر بیٹھ گئی۔ ہم تینوں ایک لمحے کو جیسے اسی پرانی دنیا میں داخل ہو گئے جہاں سرد ہوا، نیلگوں پانی، اور پہاڑوں کے سایے ہمیں اپنے اندر سمو لیتے تھے۔

“پہلی رات یاد ہے؟” میں نے پوچھا۔
“ہم دریائے ہنزہ کے کنارے بیٹھے تھے، سردی ہڈیوں میں اتر رہی تھی، مگر پھر بھی دلوں میں عجیب سی گرمی تھی۔”

زارا نے ہلکی ہنسی ہنسی، “اور پچھلے کمرے سے حمزہ کی آوازیں آ رہی تھیں۔ اس کا خیال تھا کہ وہ بہترین گلوکار ہے۔”

میں نے ہنستے ہوئے کہا، “اور تم دونوں نے اسے روکنے کی بجائے پورا ساتھ دیا تھا!”

آمنہ نے کانوں کو ہاتھ لگائے، “وہ بھی تب کا قصور وار تھا۔ ہمیں کون سا چوائس تھی۔”

ہم تینوں ہنس پڑیں۔

اس کے بعد میں نے آہستہ آہستہ ان سب باتوں کو یاد کرنا شروع کیا جو اس سفر کو ہمارے دلوں میں ہمیشہ کے لیے زندہ کر گئیں۔ وہ طویل راتیں جب ہم لکڑی کی آگ کے گرد بیٹھ کر چائے پیتے تھے۔ وہ صبحیں جب برفانی ہوا منہ پر لگتی تو ہم آنکھیں میچ لیتے۔ وہ پُل جس سے ہم گزرتے ہوئے ڈریں، مگر دل پھر بھی خوش ہوتا۔

اور پھر — وہ شخص۔

تیمور۔

شاید میرا دل اس کے نام سے پہلے ہی دھڑک اٹھتا تھا، مگر اس وقت یہ احساس نہیں تھا۔ وہ گلگت کا رہنے والا تھا، اپنی گاڑی پر سیاحوں کو مختلف وادیوں میں لے جاتا تھا۔ مگر اس کی باتوں میں ایک ٹھہراؤ تھا، ایک خاموش گہرائی، جیسے پہاڑوں کی ایک جھلک اس کے اندر بھی آباد ہو۔ وہ بے حد شائستہ تھا، کامیاب نہیں مگر قابلِ احترام، اور ایسی گفتگو کرتا کہ رات چند لمحوں میں گزر جاتی۔

وہ سفر تو صرف ایک ہفتے کا تھا، مگر حقیقت میں وہ ہفتہ میری زندگی کا سب سے روشن ترین ٹکڑا بن گیا تھا۔

جب ہم دوسری بوتیک سے نکلے، لنچ بریک ختم ہونے میں ابھی بھی چند منٹ باقی تھے مگر میرے قدموں میں ایک عجیب سی نرمی آ گئی تھی۔ جیسے جسم دفتر میں ہو، روح کہیں پہاڑوں کے درمیان بھٹک رہی ہو۔

آمنہ نے میرے ہاتھ کو تھام کر پوچھا، “تم تیمور کو یاد کر رہی ہو، ہے نا؟”

میں نے نظریں جھکا لیں۔

“ہاں… شاید۔”

زارا نے مصنوعی ناگواری کے انداز میں کہا، “ارے بس کرو۔ وہ تو اتنا سنجیدہ تھا کہ تم خود ڈر جاتی تھیں!”

میں ہنسی، “پر وہی تو اس کی خاص بات تھی۔ اس کی باتوں میں بھاری پن تھا مگر دل نرم تھا۔ جب پہلی بار اس نے جھیل کنارے مجھے ہاتھ میں پکڑا ہوا چھوٹا سا موتیے کا پھول دیا تھا… مجھے لگا تھا کہ پہاڑوں کی ساری خاموشی ایک لمحے میں میری سانسوں میں اتر گئی ہے۔”

ہم چلتے گئے اور میں بولتی گئی۔

“تمہیں یاد ہے… اُس رات جب ہم واپس سرائے کے صحن میں بیٹھے تھے؟ تیمور نے کہا تھا کہ وہ پہاڑوں کی چیزیں تصویروں میں نہیں، یادوں میں محفوظ کرتا ہے۔ اور اس وقت اس نے پہلی بار مجھے سیدھے دیکھا تھا — ایسے جیسے میں بھی کسی پہاڑ کا منظر ہوں۔”

زارا نے طنزیہ ہنسی ہنس کر کہا، “اور تم پگھل گئی تھیں۔”

میں نے مسکرا کر سر جھکایا، “ہاں… شاید۔”

آمنہ نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا تھا کہ اچانک ایک خاموشی سی چھا گئی۔ جیسے ہم تینوں اپنی اپنی سوچوں میں کھو گئیں ہوں۔

دفتر کی عمارت سامنے تھی مگر یادیں ہمیں وہاں پہنچنے نہیں دے رہی تھیں۔

میں بولی، “زارا… وہ واقعہ یاد ہے؟ جب ہم نے تمہیں اور حمزہ کو ایک ہی کمبل میں سویا دیکھا تھا؟”

زارا اچانک رک گئی۔ اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔

آمنہ نے بے چینی سے فون میں کچھ چیک کرنے کی اداکاری کی۔ میں نے حیرانی سے دونوں کو دیکھا۔

“کیا ہوا؟ مجھ سے کیوں نظریں چُرا رہی ہو؟”

زارا نے آہستہ سانس لے کر کہا، “نوشین… وہ میں نہیں تھی۔ تم غلط سمجھ رہی ہو۔ وہ آمنہ تھی۔ میں دوسرے کمرے میں سوئی تھی۔”

میرے قدم جیسے زمین میں دھنس گئے۔

“کیا؟ مگر میں نے تو صاف دیکھا تھا… سنہری شال، وہی ہلکی نیلی جیکٹ—”

آمنہ نے آہستہ کہا، “ہم دونوں نے اُس سال ایک جیسے جیکٹس لی تھیں… یاد ہے؟ تم بھی اس وقت تھک کر گاڑی میں سو رہی تھیں، شاید اسی لیے منظر یاد غلط رہ گیا۔”

میں نے ہاتھ ماتھے پر رکھ لیا۔
یادداشت کی ڈوری کسی غلط جگہ سے بندھی رہی تھی۔
اب بات سمجھ آئی کہ اگلے ہی سال آمنہ کی منگنی خاموشی سے ٹوٹ کیوں گئی تھی۔

میں نے آہستہ کہا، “آمنہ… معاف کرنا۔ شاید مجھے واقعی یاد نہیں رہا۔”

آمنہ نے مسکرا کر میرا ہاتھ پکڑ لیا، “کوئی بات نہیں نوشی۔ تم نے اُس رات بہت کچھ پیا تھا۔ اور ہم میں سے ہر ایک اپنی ہی دنیا میں الجھا ہوا تھا۔ تم ایسا کبھی جان بوجھ کر نہیں کرو گی… میں جانتی ہوں۔”

میں نے اپنے اندر ایک بوجھ سا ہلکا ہوتا محسوس کیا، مگر ساتھ ہی ایک پرانی کرواہٹ بھی جاگی — جیسے سفر کے کچھ رنگ دھندلے نہیں بلکہ بدل گئے ہوں۔

دفتر کے دروازے کے قریب پہنچتے ہوئے میں نے آخری بار آسمان کی طرف دیکھا۔
بادلوں کے پیچھے سے سورج جھانک رہا تھا۔
بالکل ویسا جیسے ہنزہ کی وہ صبح ہوتی تھی—
جس صبح تیمور نے کہا تھا:

“کچھ لوگ یادوں میں رہ جاتے ہیں، نوشین۔ اور کچھ… دل کے آس پاس۔”

مجھے نہیں معلوم وہ اب کہاں ہوگا۔
شاید پہاڑوں میں کہیں گاڑی چلا رہا ہوگا۔
شاید مسافر بدل گئے ہوں، مگر راستے وہی ہوں۔
اور شاید… وہ کبھی کبھی آج بھی اس موتیے کے پھول کو یاد کرتا ہو جسے اس نے میرے ہاتھ میں رکھا تھا۔

میں دفتر میں داخل ہوتے ہوئے خاموش سی مسکراہٹ کے ساتھ سوچ رہی تھی کہ
کچھ یادیں انسان کے دل میں رہنے کے لیے ہی بنتی ہیں—
چاہے وہ بھولی بسری ہوں
یا مکمل سنوری ہوئی۔

دفتر میں داخل ہوتے ہوئے بھی دل میں ایک ہلچل سی تھی — جیسے قدم دفتر کی ٹائلوں پر ہوں، مگر روح ابھی تک پہاڑوں کے راستوں پر چل رہی ہو۔ میں اپنی میز پر بیٹھتے ہی فائلیں کھولنے لگی، مگر میرا دھیان بار بار ونڈو کے شیشے سے باہر جھانکتی دھوپ کی طرف جا رہا تھا۔

جب میں نے وہ تھوڑا سا وقت نکال کر اپنی آنکھیں بند کیں تو یادوں کا دروازہ پوری طرح کھل گیا۔

مجھے وہ دوسری صبح یاد آ گئی جب ہم ہنزہ پہنچے تھے۔ شانتی سے بھری ہوا، ناقابلِ بیان خاموشی اور سورج کی ہلکی کرنیں، سب مل کر ایک ایسا منظر بنا رہی تھیں جسے بیان کرنا الفاظ کے بس کی بات نہیں تھی۔ وہ پہلی جگہ جہاں ہم رکے تھے، گلمت کے آس پاس کا وہ چھوٹا سا گیسٹ ہاؤس تھا جو لکڑی اور پتھر کا بنا تھا۔ اس کی بالکونی کے سامنے سفید پہاڑ تھے، اور ان کے پیچھے آسمان اتنا صاف تھا کہ انسان کو اپنی سانسیں بھی روشن محسوس ہوتیں۔

تیمور ہمیں صبح سویرے ہی اٹھا دیا کرتا تھا۔
وہ کہتا تھا:
“یہاں کی صبحیں غنیمت ہوتی ہیں، نوشین۔ جو کھو دو گی تو شاید زندگی بھر واپس نہ آ سکیں۔”

اس دن بھی ہم سب صبح چھ بجے دریا کنارے اترے تھے۔ آمنہ نے مزاحیہ انداز میں ناک لپیٹی، “کون چھ بجے اٹھتا ہے بھلا؟” مگر اس کے چہرے پر جیسے ہی ٹھنڈی ہوا پڑی، وہ ہنس پڑی۔

میں نے تیمور کو دیکھا۔ وہ پہاڑوں کی طرف دیکھ رہا تھا — جیسے ان پہاڑوں کے اندر چھپے کسی راز سے بات کر رہا ہو۔

میں نے پوچھا، “تم ہر صبح یہاں کیوں آتے ہو؟”

اس نے جواب دینے سے پہلے چند لمحے خاموشی میں گزارے۔

“کیونکہ کچھ سوالوں کے جواب شہر میں نہیں ملتے، نوشین۔ پہاڑ خاموش ہوتے ہیں مگر سکھاتے بہت کچھ ہیں۔”

میں سوچتی رہی — شاید اسی خاموشی نے مجھے اس کی طرف کھینچا تھا۔

جب ہم سب ساتھ ہنستے، چلتے، باتیں کرتے ہوئے پلوں سے گزر رہے تھے، میں نے پہلی بار خود کو ہلکا محسوس کیا تھا۔ جیسے تمام تھکن، فکریں، خوف… سب کسی وادی میں رہ گئے ہوں، اور میں خود پہلی بار زندگی کو دوسرے زاویے سے دیکھ رہی ہوں۔

ہم عطاء آباد جھیل پہنچے تو سورج آہستہ آہستہ پانی پر اتر رہا تھا۔
پانی نیلگوں تھا — اتنا شفاف جیسے کسی نے آسمان کو جھیل میں حل کر دیا ہو۔

تیمور کشتی والے کے ساتھ بات کر رہا تھا، اور ہم سب ایک جگہ بیٹھے تصویریں بنا رہے تھے۔

آمنہ نے مجھ سے چھیڑتے ہوئے کہا، “تم دونوں کے درمیان معاملہ سنجیدہ ہوتا جا رہا ہے، نوشی۔ تم بچ کر رہنا!”
میں نے فوراً اس کا بازو پکڑ لیا، “بس کرو۔ کچھ بھی نہیں ہے۔”

لیکن سچ تو یہ تھا کہ دل میں کچھ تھا۔
وہ دھڑکنوں کی رفتار بدل دیتا تھا۔

جب کشتی جھیل کے بیچ پہنچی، ہوا تھوڑی تیز ہوئی، اور میں نے دوپٹہ سنبھالا۔
تیمور نے فوراً ہاتھ بڑھا کر میرا دوپٹہ پکڑ لیا کہ کہیں اڑ نہ جائے۔
میرے چہرے پر حیرانی پھیل گئی۔

“سردی زیادہ ہو رہی ہے؟” اس نے پوچھا۔

میں نے آہستہ سر ہلایا۔
وہ میری طرف کم دیکھتا تھا، مگر جب دیکھتا — تو ایسا لگتا جیسے اندر تک جھانک رہا ہو۔

پھر وہ لمحہ آیا جس نے شاید ہمیشہ کے لیے میری یادوں میں اپنا مقام بنا لیا۔

کشتی کے کنارے کھڑے ہو کر وہ کہنے لگا:

“ایک بات کہوں؟”

میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔

“ہاں… کہو۔”

“تم شہر کی لڑکی ہو۔ تمہاری زندگی مختلف ہے۔ مگر تم یہاں کے مناظر کو جس طرح محسوس کرتی ہو… مجھے لگتا ہے پہاڑ بھی تمہیں یاد رکھتے ہوں گے۔”

میں سمجھ نہ پائی — یہ تعریف تھی یا کوئی گہری بات؟
میں صرف خاموش رہی۔
اور شاید وہ بھی یہی چاہتا تھا۔

ایک دن ہم کریم آباد کے بازار میں گھوم رہے تھے۔ لکڑی کے گھروں کے درمیان سے چلتی وہ پتلی گلیاں، ہاتھ سے بنے تسبیح، جوتے، خوبانی کے خشک پیکٹ — سب کچھ ایک الگ دنیا کی شکل میں تھا۔

آمنہ اور زارا تو اپنی خریداری میں لگ گئیں، مگر میں پیچھے رہ گئی۔
اسی وقت تیمور میرے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔

“یہ جگہ مجھے پسند ہے۔” میں نے کہا۔

اس نے ہنستے ہوئے کہا، “یہ پہاڑ کس کو پسند نہیں آتے؟”

پھر ہم ایک خاموش مقام تک پہنچے جہاں سے پورا کریم آباد نظر آتا تھا۔
ہوا میں خوشبو تھی — شاید سیب کے پھولوں کی۔

تیمور نے آہستہ سے پوچھا، “تمہیں کبھی ڈر لگتا ہے؟”

میں نے کہا، “کس چیز سے؟”

“زندگی سے… غلط فیصلوں سے… یا اس سے کہ کہیں کوئی شخص سچ میں دل کے قریب نہ آ جائے؟”

میں نے نظریں چرا لیں۔
وہ بات وہیں چھوڑ گئی، اور میں کئی دن تک اس کے کہے ہوئے الفاظ کو سوچتی رہی۔

ایک اور دن ہم خنجراب کی طرف گئے۔ راستہ لمبا تھا مگر ہر موڑ پر ایسا منظر تھا کہ ہم چند لمحوں کے لیے رکے بغیر رہ ہی نہیں سکتے تھے۔

کبھی بادل پہاڑ کے اوپر سے نیچے اتر رہے تھے۔
کبھی برفانی ہوا میں راستے دھندلانے لگتے۔
کبھی اونچے درخت اپنی خاموش کہانی سناتے۔

زارا نے راستے میں گانا چھیڑ دیا اور حمزہ اس کا ساتھ دینے لگا۔
میں کھڑکی سے باہر جھانک رہی تھی، اور تیمور ڈرائیونگ کر رہا تھا۔

ایک موڑ پر گاڑی رکی، کیونکہ سامنے برف گر رہی تھی۔
سب لوگ اتر کر تصویریں بنانے لگے،
مگر میں گاڑی کے پاس کھڑی ہوئی تھی۔

تیمور بھی گاڑی سے باہر آیا۔

“سردی لگ رہی ہے؟”

“تھوڑی سی۔”

اس نے اپنی گرم جیکٹ کا فرنٹ کھولا اور کہا،
“یہ پہن لو۔”

میں نے پہلے انکار کیا،
“نہیں، تمہیں ضرورت ہوگی۔”

وہ ہنس پڑا،
“مجھے پہاڑ گرم رکھتے ہیں۔ تم پہن لو۔”

میں نے جیکٹ پہن لی۔
وہ لمحہ عجیب تھا — دل جیسے لمحے میں دھڑک اٹھا تھا۔

ہم خاموش کھڑے رہے۔
برف فضا میں تیر رہی تھی۔
ہوا تھوڑی تیز تھی،
اور فاصلہ — وہ چند انچ کا تھا، مگر لگ رہا تھا جیسے کوئی لکیر پار ہو رہی ہے۔

ایک لمحے کے لیے مجھے لگا کہ وہ میرے ہاتھ تھام لے گا۔
مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔
شاید وہ جانتا تھا — کچھ رشتے خاموش رہ کر زیادہ خوبصورت رہتے ہیں۔

ہنزہ کا آخری دن سب سے مشکل تھا۔

ہم سب واپسی کے لیے سامان رکھ رہے تھے۔
دل میں عجیب سا خالی پن تھا — جیسے کوئی روشنی بند ہونے والی ہو۔

تیمور میرے پاس آیا اور بولا،
“ایک بات کہوں؟”

میں نے اسے دیکھا۔
اس کی آنکھوں میں کچھ تھا — شاید وہی جو میرے دل میں تھا۔

“ہاں، کہو…”

وہ چند ثانیے خاموش رہا۔
پھر کہا:

“کچھ لوگ زندگی میں آ کر ہمیں بدل دیتے ہیں۔ مگر ان کا ساتھ ہمیشہ نہیں ہوتا۔ میں یہ چاہ کر بھی نہیں کہہ سکتا کہ تم یہاں رُک جاؤ۔
اور میں شہر نہیں آ سکتا…
لیکن… یاد رکھنا نوشین —
اگر کبھی تمہیں لگے کہ تمہاری زندگی بے رنگ ہو رہی ہے،
تو یہاں آ جانا۔
پہاڑ تمہیں واپس تم سے ملوا دیں گے۔”

میری آنکھیں نم ہو گئیں۔

میں نے پوچھا، “اور تم…؟”

وہ ہلکا سا مسکرایا،
“میں تو یہیں ہوں… پہاڑوں کے بیچ… وہیں جہاں تم نے مجھے چھوڑا تھا، وہیں ملوں گا۔”

اس دن گاڑی جب وادی سے باہر نکلی،
میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا نہیں —
کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ اگر میں ایک بار بھی رک گئی،
تو شاید کبھی لوٹ نہ پاتی۔

جب یادیں یہاں تک آ پہنچیں تو میں نے آہستہ سے آنکھیں کھول دیں۔
دفتر کا ماحول واپس ویسا ہی تھا،
مگر میرا دل کہیں اور تھا —
بالکل ویسا ہی جیسے سرد پہاڑی ہوا میں معلق کوئی کاغذ۔

آمنہ اچانک میرے کیبن میں آئی۔

“نوشین، چلو چائے پیتے ہیں۔ تم آج کچھ زیادہ ہی یادوں میں گم ہو۔”

میں نے اس کی طرف دیکھا اور مسکرا کر کہا،

“ہاں… شاید کچھ یادیں دل میں رہنے کے لیے ہی بنتی ہیں۔ ختم ہونے کے لیے نہیں۔”

میں کھڑی ہوئی، دوپٹہ سنبھالا،
اور تیز قدموں سے اس سمت چل پڑی جہاں زندگی آج بھی جاری تھی —
مگر دل کے کسی گوشے میں وہی پہاڑ، وہی جھیلیں، وہی راستے…
اور تیمور کی خاموش نگاہیں
آج بھی روشن تھیں۔

Post a Comment for ""پہاڑوں کی خاموش گواہی""