Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

"میٹھے خوابوں کا گھر"

 

میرے والدین مجھ سے محبت کرتے تھے۔
مجھے اس میں کبھی شک نہیں تھا۔
مگر اپنی جوانی اور مقبولیت کو برقرار رکھنے کے جنون میں، وہ یہ بھول گئے تھے کہ میں بڑا ہو رہا ہوں۔
کبھی نہ کبھی انہیں یہ ماننا ہی پڑتا کہ موٹے گالوں والا بچہ ایک دن لمبا، سنجیدہ اور جوان لڑکا بن جائے گا۔
لیکن شاید وہ یہ سوچنا ہی نہیں چاہتے تھے۔
اگر انہیں موقع ملتا تو شاید وہ مجھے ہمیشہ ایک چھوٹے سے بچے کی حالت میں منجمد کر دیتے۔

اس وقت میں نیلے رنگ کی ملاحوں والی قمیص، نیلی نیکر اور گھٹنوں تک جرابیں پہنے اسکول جاتا تھا۔
میرے جوتوں پر چھوٹے جہاز کی شکل کے بٹن لگے ہوتے تھے۔
میرے اسکول کے کسی بھی بچے کا حلیہ ایسا نہیں تھا۔
میں گاڑی سے اترتے ہی ٹوپی اتار دیتا تھا تاکہ کم از کم اسکول میں تھوڑی عزت بچی رہے۔

باقی بچے مجھے نظر انداز کرتے تھے۔
اور سچ کہوں تو میں بھی اب اس کا عادی ہو چکا تھا۔
گھر میں بھی میں ایک سائے کی طرح تھا، اور اسکول میں بھی۔

میرے والدین ایک “لائف اسٹائل برانڈ” چلاتے تھے،
اور میں بس ان کے اشتہارات کی پس منظر کی سجاوٹ تھا۔

شروع میں اُن کا کام معصوم سا لگا—
ناشتے کے دلیے اور سوپ کے مصالحے۔
ہمارا باورچی خانہ ایک تجربہ گاہ بن گیا تھا۔
پاؤڈر ہر طرف بکھرا رہتا تھا۔
ایک دن ان کی ساتھی خاتون—جسے میں ہمیشہ "آنٹی بیلا" کہتا تھا—نے میرا ویڈیو بنایا
جب میں فرش پر گرے پاؤڈر میں برف کے فرشتے بنا رہا تھا۔
ویڈیو وائرل ہو گئی۔
ہزاروں لوگوں نے اسے پسند کیا، اور یہی ان کے کاروبار کی شروعات تھی۔

پھر ناشتے کے اشتہارات آئے—
روٹی پر پگھلتا مکھن،
تازہ بیر، اور دلیے کے پیالے۔
لوگوں نے کہا، "دن کی شروعات اتنی خوبصورت ہو تو کون جلدی جاگنا نہ چاہے!"

ان کے سوپ بھی مشہور ہوئے،
پھر وہ اپنے کھانے کے برانڈ سے آگے بڑھے۔
اب ان کی نظر فرنیچر پر تھی۔
“ہر چیز آرام دہ اور حسین ہونی چاہیے”—ان کا نعرہ تھا۔
اور یوں، “میٹھے خوابوں کا بستر” متعارف ہوا۔

میرے کمرے میں نیا بستر رکھا گیا۔
رات کے وقت، میں نے آنکھ کھولی تو دیکھا
امی، ابو، اور آنٹی بیلا میرے اوپر جھکے تصویریں لے رہے تھے۔
امی نے پوچھا،
“بیٹا، نیا بستر کیسا لگا؟”
میں نے اونگھتے ہوئے کہا،
“بہت اچھا ہے، امی۔”
اگلی صبح میری تصویر ان کے صفحے پر تھی۔
دنیا نے “پیارا سا بچہ” کہہ کر تعریف کی۔
پھر وہ سب مجھے بھول گئے۔

کچھ عرصے بعد ایک نئی آیا آئی—
نام تھا سحر۔
امی کہتی تھیں، “ہمیں ایک نرسری کی ماہر چاہیے، خوبصورت بھی ہو اور سلجھی ہوئی بھی۔”
میں نے ہمیشہ اسے “مس سحر” کہا۔
وہ واقعی مجھ سے پیار کرتی تھی۔

ایک دن میں نے پوچھا:
“مس سحر، کیا آپ جانتی ہیں میرا نام کیا ہے؟”

وہ مسکرائی، “ہاں، آپ کا نام بیبی ہے نا؟ آپ کے والدین یہی کہتے ہیں۔”

میں نے آہستہ کہا، “نہیں، میرا اصل نام علی ہے۔ لیکن شاید وہ بھول گئے ہیں۔”

سحر خاموش رہی۔
پھر بولی، “کیا تم چاہتے ہو میں تمہیں علی کہوں؟”
میں نے سر ہلایا۔ “ہاں۔ مجھے یہی نام پسند ہے۔”

کچھ ہفتے گزرے۔
میری سالگرہ آئی اور چلی گئی۔
امی ابو اور بیلا چھٹیاں منانے کا سوچ رہے تھے۔
میں نے آہستہ پوچھا، “کیا میں بھی جاؤں گا؟”
کسی نے سنا نہیں۔

بس سحر نے مسکرا کر پوچھا،
“علی، پھل کا پیالہ لو گے؟”

سحر کے منہ سے میرا نام سن کر سب چونک گئے۔
امی کے چہرے پر رنگ اتر گیا۔
ابو نے نظریں چرا لیں۔
بیلا خاموش ہو گئی۔
اس رات کے بعد سحر کو نکال دیا گیا۔
انہوں نے بس اتنا کہا، “بیٹا، اب تمہیں اسکول جانا ہے۔”

کچھ دن بعد میں نے اسکول جانا شروع کیا۔
وہاں میرا دوست حمزہ بنا۔
حمزہ کے والد ایک صفائی کے ادارے میں کام کرتے تھے۔
وہ ہمیشہ کہتے، “ہم ہر چھوٹی بڑی پریشانی دور کر دیتے ہیں—چاہے وہ کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو۔”
حمزہ خوش رہتا تھا کیونکہ اس کے والدین اسے وقت دیتے تھے۔

میں نے ایک دن باغ میں ایک چھوٹا سا کیڑا دیکھا، جو میں نے بوتل میں قید کر لیا۔
میں اسے اسکول کے "شو اینڈ ٹیل" کے لیے رکھنا چاہتا تھا۔
مگر دل میں عجیب سی خواہش تھی —
شاید اب گھر میں بھی کچھ بدل جائے۔

پھر ایک دن صبح، گھر کی ملازمہ نے آ کر کہا:
“بیٹا، تمہاری امی ابو اور آنٹی بیلا بیمار ہیں۔
تم کچھ دن کے لیے دادا دادی کے پاس چلے جاؤ۔”

میں نے معصومیت سے پوچھا، “کیا وہ ٹھیک ہو جائیں گے؟”
وہ بولی، “ہاں، انہیں تھوڑا آرام چاہیے۔”

دادا ابو آئے۔
انہوں نے میری طرف دیکھا اور بولے،
“ارے بیٹا، کیا تم خود یہ کپڑے پہنتے ہو؟”
میں نے فوراً نفی میں سر ہلایا۔
دادا مسکرائے، “چلو، اب تمہیں اپنی مرضی کے کپڑے دلائیں گے۔”

میں ان کے ساتھ چلا گیا۔
کچھ دن بعد خبر آئی—
امی، ابو اور بیلا اب نہیں رہے۔
بیماری نے ان تینوں کو لے لیا۔

دنیا بھر کی خبریں چیخنے لگیں:

“چھوٹا علی والدین کے مشہور برانڈ ‘میٹھے خوابوں کا گھر’ کا اکلوتا وارث بن گیا۔”

میں نے ان کے جنازے کے وقت دادا دادی کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا۔
کیمروں کی روشنی میں میں چھوٹا لگ رہا تھا،
مگر شاید پہلی بار میرے وجود کو پہچانا گیا۔

🌾 اختتام:

اب میں “میٹھے خوابوں کا گھر” کا وارث تھا —
مگر میرے خواب، اب صرف میرے تھے۔
اور اس بار،
کسی نے میرا نام بھلایا نہیں۔

Post a Comment for ""میٹھے خوابوں کا گھر""