Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

"ہر سال بدلتا چہرہ:

 

رات کا سکون کچھ زیادہ ہی گہرا تھا۔ ہر سال کی طرح، آج بھی میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ جنم دن منایا، ہنسا، خوش ہوا، اور پھر تنہا گھر پہنچ کر بستر پر لیٹ گیا۔ ٹیکنالوجی کی روشنی میں فون کی اسکرین پر آنکھیں جمائی، اور میں انتظار کرنے لگا۔ رات کے تین بج کر ستائیس منٹ ہوتے ہی ہر سال کی طرح، میرا جسم بدلنے لگتا۔ ہاتھ، پیر، اور چہرہ اپنی جگہ سے ہلتے، جسم کی شکل بدلتی، لیکن تکلیف ہمیشہ حد سے زیادہ نہیں ہوتی۔ میں نے سیکھا ہے کہ سکون کے ساتھ ہر لمحہ برداشت کرنا بہترین ہے۔

یہ میرا ستائیسویں جنم دن اور ستائیسویں چہرہ تھا۔ میں نے بستر سے اٹھ کر آئینے کے سامنے قدم رکھا۔ گزشتہ سال کا چہرہ نرم اور دوستانہ تھا، لیکن اس سال کے چہرے میں سختی اور تھوڑی سی سنجیدگی نظر آ رہی تھی۔ ہونٹ کے کنارے، ناک کی تھوڑی سی لکیریں، آنکھوں کی جھلک، سب کچھ نیا تھا۔ میں نے ہر تاثرات کی مشق کی، خوشی، غصہ، اداسی، حیرت، سب کچھ۔

میرے فون پر ماں کی کال آئی، جیسا ہر سال ہوتا ہے۔

"ہیلو بیٹا! آج کا چہرہ بہت اچھا لگ رہا ہے!" ماں نے خوشی سے کہا۔

"ہیلو ماں۔" میں تھک کر بولا۔

"سب ٹھیک ہے نا؟ کوئی مسئلہ تو نہیں؟"

"نہیں ماں، سب ٹھیک ہے۔" میں نے جواب دیا اور کال ختم کی۔ آئینے میں ایک آخری نظر ڈالی اور بستر پر واپس گیا۔ تبدیلی ہمیشہ تھکن لاتی ہے، اور میں لمحوں میں سو گیا۔

صبح کے وقت، الارم کی تیز آواز نے مجھے جگایا۔ نئے چہرے اور نئے جسم کے ساتھ پرانے کپڑے اب فٹ نہیں تھے۔ میں نے ناشتہ تیار کیا اور دفتر کے لیے روانہ ہوا۔ راستے میں لوگ میری طرف دیکھ رہے تھے، لیکن میں عادی ہو چکا تھا۔ گاڑی میں بیٹھ کر اپنے نئے چہرے کی عکاسی میں خود کو دیکھا۔

دفتر میں داخل ہوا۔ ماحول کچھ زیادہ ہلچل بھرا تھا۔ ساتھی اپنی مصروفیات میں تھے۔ ہولی، میری ساتھی ریسپشنسٹ، ہمیشہ کی طرح آرام دہ اور لاپرواہ۔

"صبح بخیر، ہولی۔ آج کچھ خاص ہے؟" میں نے پوچھا۔

"نہیں، بس معمولی دن ہے۔" اس نے جواب دیا، لیکن نگاہیں میرے نئے چہرے پر جم گئیں۔ "واہ، تم واقعی آج کچھ مختلف لگ رہی ہو۔"

کام کے دوران، میری ملاقات لیوس سے ہوئی، میری باس، جس کا دفتر ہمیشہ صاف اور منظم رہتا تھا۔ لیکن آج وہ پریشان لگ رہی تھی۔ جیسے ہی میں اندر گیا، اس نے فوراً ایک تصویر میرے سامنے کھول دی۔

"یہ تم ہو؟" اس نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا۔

میں نے تصویر دیکھی اور دل دھک سے رہ گیا۔ تصویر میں جو چہرہ تھا، وہ میرے نئے چہرے کے عین مطابق تھا، لیکن کسی ماڈل کی، جو ابھی کچھ گھنٹے قبل ایک حادثے میں چل بسی تھی۔

میرے دل میں ایک خوفناک سوال اٹھا: "کیا میں مردہ لوگوں کے چہرے پہنتا رہا ہوں؟"

یہ حقیقت میری پوری زندگی بدل سکتی تھی۔ میں نے ہر سال مختلف چہرے اپنائے، کبھی لمبے، کبھی چھوٹے، کبھی خوبصورت، کبھی عام، لیکن کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ چہرے واقعی کسی کی اصل شناخت ہو سکتے ہیں۔

آفس میں ہر چیز عجیب سی لگ رہی تھی۔ لوگ نظریں جھکا کر کام کر رہے تھے، لیکن میں خود کو سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا کہ یہ سب ایک حادثہ ہے، میری زندگی کے معمولات کا حصہ۔ لیکن اندر ایک خوف تھا جو بتا رہا تھا کہ یہ صرف آغاز ہے۔

میں نے دفتر سے باہر نکل کر ٹریفک میں گاڑی چلائی۔ نئے قد کے ساتھ ہر چیز مختلف محسوس ہو رہی تھی۔ کچھ لوگ میری طرف حیرت سے دیکھ رہے تھے، کچھ کے چہرے حیرت سے کھلے ہوئے تھے۔ میں عادی ہو چکا تھا لیکن آج کا دن کچھ زیادہ عجیب تھا۔

دفتر واپس پہنچ کر میں نے سوچا کہ شاید یہ سب صرف ایک غلط فہمی ہے، لیکن لیوس کی نظر اور وہ تصویر کچھ اور کہہ رہی تھی۔ میں نے خود سے وعدہ کیا کہ حقیقت کا سامنا کروں گا، چاہے جو بھی ہو۔

رات کے وقت، میں بستر پر لیٹا اور سوچا کہ یہ راز کس طرح سامنے آئے گا۔ ہر سال کا چہرہ، ہر سال کا جسم، ایک سال کے لیے میری پہچان، اور اب یہ خوفناک حقیقت کہ شاید یہ چہرے پہلے مر چکے لوگوں کے ہوں۔

میں نے اگلے چند دن اپنے نئے چہرے کے ساتھ گزارے، ہر نظر اور ردعمل کا تجزیہ کیا۔ دفتر میں ساتھیوں کی حیرت، پڑوسیوں کی جھلکیں، اور بس کی سواریاں، سب میری نظر میں مختلف لگ رہی تھیں۔ ہر چہرہ، ہر جسم، میرے لیے ایک تجربہ تھا۔

پھر ایک دن میں نے فیصلہ کیا کہ راز کو مزید جانچوں گا۔ میں نے پرانی تصویروں، اخباروں، اور حادثات کے ریکارڈز کو دیکھا۔ ہر بار ایک نیا چہرہ، ایک نیا جسم، لیکن کچھ چیزیں ہمیشہ مشابہت رکھتی تھیں: آنکھوں کی جھلک، ہونٹوں کا زاویہ، اور ناک کی لمبائی۔

یہ حقیقت کہ شاید میں مردہ لوگوں کے چہرے پہنتا رہا ہوں، میرے لیے ایک خوفناک دھچکا تھی۔ میں نے اپنے آپ سے سوال کیا کہ کیا یہ کوئی قدرتی مرض ہے، یا کوئی لعنت؟ ہر سال جنم دن کی تبدیلی میرے لیے صرف فزیکل نہیں، بلکہ روحانی اور نفسیاتی تبدیلی بھی تھی۔

ہر دن، ہر رات، میں نئے چہرے کے ساتھ جیتا اور سیکھتا۔ لوگوں کی باتیں، ردعمل، اور حیرتیں، سب میری زندگی کا حصہ بن گئیں۔ لیکن اب، ایک نئی حقیقت میرے سامنے تھی: ہر چہرہ ایک کہانی سناتا تھا، اور میں وہ کہانیاں زندہ کر رہا تھا۔

میں نے دفتر کے معاملات، دوستوں، اور پڑوسیوں کے ساتھ اپنی زندگی جاری رکھی، لیکن اندر ایک سوال ہمیشہ رہتا: میں کون ہوں، اور یہ سب تبدیلیاں کیوں ہو رہی ہیں؟ ہر چہرہ، ہر جسم، ایک نئے سبق کے ساتھ آتا، لیکن سچائی ہمیشہ چھپی رہتی۔

میں نے فیصلہ کیا کہ ہر سال تبدیلی کو گلے لگاؤں گا، چاہے یہ کتنی بھی عجیب اور خوفناک کیوں نہ ہو۔ ہر چہرہ، ہر جسم، میری زندگی کے ایک نئے باب کی شروعات ہے۔ اور میں جانتا ہوں، ہر سال ایک نیا راز، ایک نیا تجربہ، اور شاید ایک نیا سبق مجھے انتظار کر رہا ہے۔

Post a Comment for ""ہر سال بدلتا چہرہ:"