لاہور کی صبح ہمیشہ اپنی خوشبو سے دل کو بہلا دیتی تھی۔ ہوا میں تازہ پھولوں اور ناشتہ بنانے والی دکانوں کی خوشبو ملی ہوئی تھی۔ عائشہ صدیقی اپنے چھوٹے سے اپارٹمنٹ کی بالکونی پر کھڑی، شہر کی روشنیوں کو دیکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں وہ روشنی تھی جو کسی خواب کی حقیقت معلوم ہوتی تھی۔ آج وہ اپنے دوستوں کے ساتھ ایک باغ میں چھوٹے سی سفر پر جا رہی تھی، مگر دل کہیں اور ہی اداس محسوس کر رہا تھا۔
ریاں خان ہمیشہ اس کے خیالات میں رہتا۔ چاہے وہ دفتر کی میٹنگ ہو یا کیفے میں بیٹھنا، عائشہ کے دل میں ریاں کی موجودگی ایک خاموش سا سکون پیدا کرتی۔ ریاں ایک خوبصورت نوجوان، نرم دل، مگر تھوڑا شرمیلا، اپنے کام میں مصروف، اور عائشہ کے لیے ایک انجان دنیا سے زیادہ اہمیت رکھتا تھا۔
صبح کی روشنی میں جب وہ باغ کی طرف جانے والی بس میں سوار ہوئی، اس کی نظر ریاں پر پڑی۔ ریاں پہلے ہی وہاں موجود تھا، اپنی شرمیلی مسکراہٹ کے ساتھ۔ عائشہ کے دل نے اچانک تیز دھڑکنا شروع کر دیا۔
باغ پہنچتے ہی سب دوست اپنے اپنے حصے میں مصروف ہو گئے۔ پھولوں کی خوشبو، ہلکی ہلکی ہوا، اور دور دور تک سبزہ، سب کچھ جیسے کسی خواب کی تصویر لگ رہا تھا۔ ریاں اور عائشہ کو ایک دوسرے کے قریب بیٹھنے کا موقع ملا۔
اس لمحے، ہوا کے ساتھ کچھ خوشبو آئی، جیسے وقت خود رک گیا ہو۔ عائشہ کی آنکھیں ریاں کی آنکھوں میں جمی رہیں، اور دل میں خاموشی سے ایک دعا ہوئی کہ یہ لمحہ کبھی ختم نہ ہو۔
دوپہر کا وقت آیا تو دوست باغ کے وسط میں موجود چھوٹے سا کیفے میں بیٹھ گئے۔ گفتگو ہلکی اور خوش مزاج تھی، مگر عائشہ اور ریاں کا ذہن ایک دوسرے پر مرکوز رہا۔ ہر چھوٹی بات میں وہ ایک دوسرے کی موجودگی کو محسوس کر رہے تھے، اور دل کے احساسات آہستہ آہستہ زبان پر آنے لگے۔
عائشہ کے دل میں خوشبو کی طرح ایک نرم لہر دوڑ گئی۔ اس نے جان لیا کہ یہ صرف الفاظ نہیں، بلکہ دل سے نکلنے والے احساسات ہیں۔
دن کے اختتام پر، جب سورج نے اپنے سنہرے رنگ کی روشنی بکھیر دی، وہ سب ساحل کی طرف گئے۔ ریت پر چلتے ہوئے، سمندر کی ہلکی ہلکی لہریں ٹانگوں کے پاس آ رہی تھیں۔ ریاں نے عائشہ کا ہاتھ تھام لیا۔ یہ پہلی بار تھا کہ دونوں کے ہاتھ حقیقت میں ملے، اور دونوں کی روحوں میں ایک عجیب سکون آ گیا۔
رات کے اندھیروں میں، جب چاندنی نے سمندر کی سطح کو چمکایا، ریاں اور عائشہ ایک دوسرے کے قریب بیٹھے، اور ایک دوسرے کے دل کی دھڑکن سن رہے تھے۔ یہ لمحہ وقت کی خوشبو میں بسا ہوا تھا، جسے وہ ہمیشہ یاد رکھیں گے۔
ان کے درمیان محبت کا سفر بس شروع ہوا تھا، اور سب کچھ اتنا قدرتی اور سچائی سے بھرا ہوا لگ رہا تھا کہ کوئی بھی دنیا کی پریشانی اس لمحے کو بگاڑ نہیں سکتی تھی۔
اگلے دنوں میں، وہ دونوں ایک دوسرے کو اور قریب سے جاننے لگے۔ ہر ملاقات، ہر بات، ہر ہنسی، ان کے دل کے ریشے مضبوط کر رہی تھی۔ وہ سبز باغات میں ٹہلتے، قہوہ خانے میں لمبا وقت گزارتے، اور ساحل کے کنارے دن کے اختتام کو خوبصورت لمحوں میں بدل دیتے۔
ہر لمحہ ایک یاد بن گیا، ہر بات ایک داستان۔ اور وقت کی خوشبو، جو ان کے ساتھ ہمیشہ موجود رہی، ان کی محبت کی مٹھاس میں گھلتی رہی۔
چند مہینوں بعد، ریاں نے عائشہ کے سامنے اپنی محبت کا عہد کیا، ساحل کی روشنی میں، جہاں سمندر کی لہریں نرم نرم زمین کو چُو رہی تھیں۔
یوں، ان کی محبت ایک خوبصورت سفر کی شروعات بن گئی، جو وقت کی خوشبو میں ہمیشہ تازہ اور خوشبودار رہے گی۔

Post a Comment for "وقت کی خوشبو"