Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

’’خالی گھر کا خریدار‘‘


 

میں نے فون کی آواز پوری کر دی تھی اور گاڑی کے بلوٹوتھ سے بھی ڈسکنیکٹ کر لیا، مگر سگنل پھر بھی غائب۔ شہر سے دور ایک چھوٹا سا پہاڑی گاؤں، جس کا نام ’’نیول‘‘ تھا، بالکل خاموش اور تنہا پھیلا ہوا تھا۔ آس پاس بس جنگل اور پہاڑ، اور درمیان میں 250 لوگوں کا یہ بسا ہوا گاؤں تھا۔

“فہد، ایک بار پھر پتہ دہرا دینا، یہاں سگنل بار بار جا رہا ہے۔”

اس کے ٹوٹے پھوٹے الفاظ اسپیکر پر ابھرے۔
“چھ… چھے… چھہتر… شین ساہ لین…”

میں ہنسا۔ “یار، یہ کون سا پتہ ہے؟ 676 شین ساہ لین؟”

“ہاں… بس… تھوڑا سا… پرانا تلفظ… ہے…”

“اچھا ٹھیک۔ اور کلائنٹ کا نام کیا تھا؟”

“ارسلان… خان…”

“ارسلان خان، 676 شین ساہ لین۔ زبردست۔”

میں نے کال ختم کی اور جی پی ایس میں پتہ ڈال دیا۔

تقریباً پچیس منٹ کی ڈرائیو تھی، مگر ہر گزرتے لمحے کے ساتھ میں درختوں کی گہری ہوتی گھاٹی میں جا رہا تھا۔ کوئی اسٹریٹ لائٹ نہیں تھی، سورج کی آخری روشنی بھی پتوں کی موٹی چھت کے نیچے دب گئی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے دنیا ختم ہو رہی ہو اور بس جنگل باقی رہ گیا ہو۔ عجیب سی خاموشی تھی، مگر حیرت انگیز طور پر میں اس تنہائی سے لطف لے رہا تھا۔

آخرکار مجھے ایک زنگ آلود سا میل باکس نظر آیا جس پر 676 کھدا ہوا تھا اور جس میں کئی پرانی اخباریں ٹھونس کر رکھی تھیں۔

میں نے گاڑی تنگ سی کچی ڈرائیو وے میں موڑی۔ جھاڑیاں دونوں طرف اونچی تھیں۔ اندر کہیں ایک پرانا سا چھوٹا سا گھر درختوں کے بیچ چھپا کھڑا تھا۔ لکڑی کی بیرونی دیواریں جگہ جگہ گل چکی تھیں، کھڑکیاں تختوں سے بند تھیں اور گھاس گھٹنوں تک بلند ہو کر پورے گھر کو گھیرے کھڑی تھی۔

میں گاڑی سے اترا اور قدم رکھتے ہوئے احتیاط کرنے لگا۔ مجھے لگا کہ یہاں کہیں کوئی کھڈا یا جانوروں کا گند نہ پڑا ہو۔ اسی دوران مجھے گھاس میں کچھ چمکتا دکھائی دیا۔

میں بمشکل ایک بڑے لوہے کے پھندے سے بچا۔

“اوہ خدا… یہ تو باقاعدہ شکاریوں والا پھندا ہے!” میرا دل زور سے دھڑا۔

آخرکار میں دروازے تک پہنچا اور آہستہ سے دستک دی۔ چند لمحے بعد اندر سے بھاری، سست قدموں کی آواز آئی۔

دروازہ چرچراتا ہوا کھلنے لگا۔
چرررررررررر…

ارسلان خان آخری حد تک دبے دبے انداز میں سامنے آئے۔ وہ بہت لمبے قد کے آدمی تھے۔ پرانا سا موٹا کپڑے کا ایپرن پہنے ہوئے، جس پر مختلف قسم کے دھبے لگے تھے۔ ناخن قدرے بڑے اور ہاتھ مٹی یا شاید کسی اور خشک مادے سے بھرے ہوئے۔ مگر سب سے زیادہ توجہ ان کے چہرے نے کھینچی۔

جو کہ میں دیکھ ہی نہیں سکا، کیونکہ انہوں نے اسے ایک پرانے، آلودہ ورک ماسک سے ڈھانپا ہوا تھا۔ بس ان کی سرمئی آنکھیں دکھائی دیتی تھیں، جن میں ایک ٹھنڈی سی سنجیدگی جھلک رہی تھی۔

میں نے ایک گہری سانس لی اور اپنی پُر اعتماد مسکراہٹ چہرے پر رکھی۔

“السلام علیکم، خان صاحب۔ میں سفیان ملک ہوں، نیو وژن ہومز سے۔ ہماری کمپنی چھوٹے شہروں میں ٹو̈رزم کے مواقع تلاش کرتی ہے اور یہاں کے لوگوں کو فائدہ پہنچانے والے منصوبوں پر کام کرتی ہے۔ نیول کی خوبصورتی اور پہاڑی منظر بالکل ویسے ہی ہیں جیسے بڑے شہروں سے آنے والے سیاح ڈھونڈتے ہیں۔ اور آپ کا گھر تو بہترین جگہ پر واقع ہے۔”

ارسلان خان خاموش کھڑے رہے، جیسے کچھ سوچ رہے ہوں۔

میں نے آہستہ سے بات آگے بڑھائی۔
“صاف بات یہ ہے کہ ہم یہاں نیا، مضبوط گھر بنا کر اسے سیاحتی رہائش گاہ بنانا چاہتے ہیں۔ اگر اندرونی حالت بھی بہتر ہوئی تو میں چیک پر مزید زیرو لگا سکتا ہوں۔ آپ چاہیں گے تو چند روز میں ہی کسی پرسکون ساحلی شہر میں چھٹی منانے جا سکتے ہیں۔”

میں نے مسکراتے ہوئے چیک بک دکھائی۔

ارسلان خان نے ایک لفظ بھی نہ بولا، بس آہستہ سے مڑ کر گھر کے اندر چل دیے۔ دروازہ کھلا چھوڑ دیا۔

یہ ان کی خاموش اجازت تھی۔
میں نے قدم بڑھایا اور اندر داخل ہو گیا۔

سامنے کا دروازہ سیدھا ایک ایسے کمرے میں کھلتا تھا جسے کچھ لوگ بیٹھک کہہ سکتے تھے، مگر یہاں نہ کوئی فرنیچر تھا، نہ بلب۔ بس ایک خالی، خاموش سا کمرہ، اور اس کے بالکل بیچ میں ارسلان کھڑا تھا۔

“واہ، کمرہ تو خاصا کشادہ ہے!” میں نے تعریف کی۔ “اگر ان بند کھڑکیوں سے یہ لکڑی ہٹا دیں تو روشنی بھی خوب آئے گی۔”

ارسلان خاموشی سے دیکھتے رہے۔

قسم سے، اس آدمی نے اب تک پلک بھی نہیں جھپکی۔

جہاں میں کھڑا تھا، وہیں سے ایک چھوٹا سا کچن نظر آ رہا تھا۔ میں آگے بڑھا۔ جگہ بہت تنگ تھی۔ ارسلان نے راستہ دکھانے کی زحمت نہیں کی اور میں اپنے پیچھے اسے خاموش کھڑا چھوڑ کر اندر چلا گیا۔

کچن تقریباً خالی تھا۔ ایک پرانا سا فریج، ایک یوٹیلٹی سنک جس میں مختلف کپڑے، بیگ اور جوتے بھرے تھے، اور چولہا جس پر برتن بکھرے پڑے تھے۔ اوپر بھنوریاں بناتے چھوٹے کیڑے چکر لگا رہے تھے۔

“آپ کا اندازہ تو بڑا منیملسٹک ہے، بہت جدید!” میں نے ہنستے ہوئے کہا۔

میں پلٹا تو ارسلان بالکل میرے پیچھے کھڑا تھا۔ اس قد و قامت کے ساتھ اس کا اتنا خاموش آ جانا حیران کن تھا۔

میں نے اس کے ایپرن کی طرف اشارہ کیا، “آپ کے ایپرن سے لگتا ہے آپ پکاتے بھی بہت ہیں؟ گرلنگ پسند ہے؟ مجھے کل ایک کلائنٹ نے خاص گوشت تحفے میں دیا ہے، سوچ رہا ہوں آج پکا لوں.” میں کبھی نہیں پکاؤں گا۔ “آپ نے کبھی مہنگا معیاری گوشت کھایا ہے، خان صاحب؟”

ارسلان کچھ نہ بولے۔

“چلیں، ہر کسی کا ذائقہ الگ ہوتا ہے۔ کبھی کبھی میں سادہ کھانا پسند کرتا ہوں۔” میں تو ویسے بھی سبزی خور ہوں۔

کچن کے بعد وہ مجھے ایک کمرے کی طرف لے گئے۔ لگتا تھا یہ بیڈ روم ہے مگر یہاں بھی کوئی فرنیچر نہیں تھا۔ بس دیوار پر لوہے کی زنجیریں اور ہتھکڑیاں لگی تھیں، جیسے کوئی عجیب سا آرٹ۔ فرش پر خشک ہو چکے بھورے دھبے تھے۔

“اوہ! اصلی پرانا لکڑی کا فرش۔ یہی چیز قیمت بڑھا دیتی ہے، خان صاحب!”

میں بغیر جواب کی توقع کے کمرے سے نکل آیا، اور امید کی کہ وہ مجھے مزید آگے لے جائیں گے۔

وہ راہداری کے آخر میں ایک دروازے کے پاس رکے جس پر پانچ تالے لگے تھے۔ ارسلان نے ایپرن کے اندر ہاتھ ڈال کر ایک بڑا سا لوہے کا گچھا نکالا۔

انہوں نے تالے کھولنے میں خاصا وقت لیا، پھر آہستہ سے دروازہ کھول دیا۔

دروازہ وہی اذیت ناک آواز نکال رہا تھا، مگر اس بار اوپر کی طرف سے ایک ایسی بدبو ابھری کہ ناک میں چبھن ہوئی۔

اندر کوئی بتی نہیں تھی، مگر اندازہ ہوا کہ یہ تہہ خانہ ہے۔ میں بھی اپنی بدمہکی چیزیں ایسی جگہ رکھتا۔

ارسلان میرے چہرے کے تاثرات گھور رہے تھے، جیسے میرے جواب کا انتظار ہو۔ میں نے بس مسکرا دیا۔

وہ میرے آگے بڑھے اور اندھیرے میں سیڑھیاں اترنے لگے۔ میں بھی احتیاط سے پیچھے آیا، ہاتھوں سے دیوار یا ریلنگ ٹٹولنے کی کوشش کرتے ہوئے۔ نیچے پہنچتے ہی مجھے دھات جیسی آواز آئی۔ ارسلان نے ایک چین کھینچی اور اوپر لٹکتا بلب جھلملاتا ہوا روشن ہوگیا۔

تہہ خانہ ایک چھوٹا، سرمئی کنکریٹ کا ڈبہ تھا۔ نہ کوئی واشنگ مشین، نہ ڈبّے، نہ پُرانا سامان۔ بس ایک کونے میں انسانوں کی چند لاشیں دھری تھیں۔ میں نے ناک سکوڑی اور احتیاط سے قدم رکھتے ہوئے ان کے قریب جا کر دیکھا۔ ہاں—مرے ہوئے تھے۔

میں نے پلٹ کر ارسلان کی طرف دیکھا۔
“اچھا، تو یہ ایک ادھورا سا بیسمنٹ ہے…” پھر لاشوں پر نظر ڈالی، “…اور شاید کوئی شدید صفائی کا مسئلہ۔ لیکن گھبرانے کی بات نہیں۔ یہ سب ٹھیک ہو سکتا ہے۔ ویسے بھی ہم نے اسے دوبارہ بنانا ہے۔”

ارسلان نے پہلی بار پلک جھپکی۔ مجھے لگا معاملہ طے ہو گیا ہے۔ ہم واپس سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آئے اور پھر وہی خالی بیٹھک میں روبرو کھڑے تھے۔

“تو جناب، گھر دیکھنے کے بعد میں نے چیک میں ایک اور صفر شامل کر دیا ہے۔” میں نے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ وہ اسی بے تاثر نظر سے مجھے دیکھتے رہے، مگر میں بولا چلا گیا۔
“نیو وژن ہومز آپ کی یہ جائیداد چار لاکھ پچھتر ہزار ڈالر میں خریدے گی۔ اگر آپ چند ڈیجیٹل دستخط کر دیں تو اڑتالیس گھنٹوں میں رقم آپ کے اکاؤنٹ میں پہنچ جائے گی۔”

ارسلان نے دوبارہ پلک جھپکی۔

“عمدہ! میں اپنی ٹیبلیٹ گاڑی سے لے کر آتا ہوں۔ آپ تو آج مالا مال ہونے والے ہیں۔ مبارک ہو!”

تمام فارم، دستخط اور ضروری کارروائی نمٹا کر میں نے اسے الوداع کہا اور گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔

سورج پہاڑیوں کے پیچھے ڈوبنے لگا تھا۔ گاؤں سے نکل کر میں نے فہد کو کال ملائی۔ اس نے دو رنگ میں فون اٹھایا۔

“سفیان! اچھی بات ہے کہ سگنل آ گیا۔ خیر ہے، زندہ سلامت ہو۔ کیسا رہا سب کچھ؟”

“بالکل آسان۔ لگ رہا تھا جیسے اس نے کبھی ٹیبلیٹ دیکھی ہی نہ ہو۔ خیر… مجھے تمہیں ایک بات بتانی ہے۔ آج جو دیکھا… دل میں بوجھ سا بن گیا ہے۔”

“کیا؟ جلدی بتاؤ، کیا ہوا؟” فہد نے گھبراہٹ سے پوچھا۔

“ارسلان کے گھر کے اندر… میں نے… میں نے کچھ دیکھا…”

“کیا دیکھا؟ سیدھی بات کرو، سفیان!”

“میں نے… میں نے اپنا مستقبل دیکھا، فہد۔ منیملزم۔ میں گھر پہنچ کر اپنی پوری اپارٹمنٹ کی صفائی کرنے والا ہوں۔ آج واقعی بہت الهام ملا ہے۔”

“بہت خوب۔ خوش رہو،” فہد نے طنز بھری نرمی سے کہا۔ “بڑی مبارک ہو۔ ایک اور ڈیل مکمل ہو گئی۔ تم نے ہماری کمپنی کو پھر کروڑوں کا فائدہ دے دیا۔”

“کیا کروں؟” میں نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔ “لوگوں کے ساتھ گھلنے ملنے کی خاص صلاحیت ہے مجھ میں۔”

میں نے گاڑی سڑک پر ڈال دی۔ پہاڑوں کے پیچھے ڈوبتا سورج گاڑی کی فرنٹ اسکرین پر سنہری لائنیں کھینچ رہا تھا، مگر میرے ذہن میں ابھی تک تہہ خانے کی تصویر گردش کر رہی تھی۔ عجیب بات یہ ہے کہ میرے اندر خوف سے زیادہ تجسس تھا۔ کچھ لوگ ایسے مناظر دیکھ کر بھاگ نکلتے ہیں، مگر میں… میں تو ارسلان کے اس بے تاثر چہرے سے زیادہ ڈر گیا تھا۔ وہ لاتعلق سکون، وہ پلکوں کی نایاب جنبش، وہ خاموشی—سب کچھ کسی نامعلوم گہرائی کی طرف اشارہ تھا۔

گاؤں کی حد سے نکلتے ہی سگنل واپس آ گیا۔ فہد کی آواز سن کر جیسے معمول زندگی لوٹ آئی ہو، مگر اندر کچھ بدلا ہوا تھا۔

“سفیان، تو واقعی ٹھیک ہے نا؟”
فہد کی آواز تھوڑی سنجیدہ تھی۔ وہ مجھے پورا جانتا تھا، جانتا تھا کہ میں کس حد تک بےفکری سے کام لیتا ہوں۔

“ہاں یار، سب ٹھیک ہے۔ بس… کچھ عجیب سا تھا۔”

“عجیب؟” فہد کی آواز میں تجسس نمایاں تھا۔
“تم وہاں اکیلے گئے تھے، جنگل میں، اندھیری جگہ پر… میں تو پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ کسی کو ساتھ لے جاؤ—”

“اوہ خدا کا واسطہ، فہد!” میں ہنسا، “تم نہ فلمیں کم دیکھا کرو۔ ڈیل ہو گئی ہے، پیسہ آ رہا ہے، اور میں زندہ ہوں۔ بس یہی کافی ہے نا؟”

مگر اندر کہیں چھوٹا سا کھٹکا موجود تھا۔
کچھ نہ کچھ… ٹھیک نہیں تھا۔

شہر کے قریب پہنچتے پہنچتے آسمان پوری طرح سیاہ ہو گیا۔ گاڑی کے اندر ایک عجیب سی خاموشی پھیلی ہوئی تھی۔ میں اپنی ہی سوچوں میں گم تھا جب میں نے ریئر ویو مرر میں جھانکا۔

اور پہلی بار مجھے احساس ہوا—میں نے ڈیل تو کر لی تھی، مگر میں نے ایک سوال بھی نہیں پوچھا تھا۔

ارسلان خان اس جنگل میں اکیلا کیوں رہتا ہے؟
وہ گھر برسوں سے بند کیوں تھا؟
وہ سارے تالے کیوں لگے تھے؟
بیسمنٹ کی صفائی کون کرتا تھا؟
اور سب سے بڑا سوال—
وہ مجھے ایسے کیوں دیکھ رہا تھا؟ جیسے وہ “مجھ” کو نہیں… میرے اندر کچھ اور تلاش کر رہا ہو۔

میں نے سر جھٹکا۔
“سفیان، حد کر دیتا ہے تو بھی۔ یہ سب وہم ہے۔”

اپنی بات خود ہی رد کر کے میں نے موسیقی آن کی، مگر ذہن پھر بھی وہیں پھنسا رہا۔

شہر کے اندر میری بلڈنگ کی روشنیاں دور سے جگمگاتی دکھائی دیں۔
“اچھا، اب میں واقعی صفائی کروں گا… پورا گھر۔”
میں نے خود سے سوچا؛ شاید بےچینی مٹ جائے۔

اپارٹمنٹ میں داخل ہوتے ہی میں نے لائٹس آن کیں، مگر روشنی بھی عجیب سی بے جان محسوس ہوئی۔ جیسے گھر مجھے نئے انداز میں دیکھ رہا ہو۔

میں نے پریکٹس کے طور پر جوتے اتارے اور سیدھا اپنے چھوٹے اسٹور روم کی طرف گیا۔ وہاں برسوں کا بیکار سامان دھرا تھا—بازار سے اٹھائے گئے پرانے پوسٹر، ٹوٹی ہوئی لیمپ، ایک آدھ خالی سوٹ کیس۔ میں نے سب کو گھور کر دیکھا۔

“ارسلان ٹھیک کہتا تھا…” میں نے سرسراتی آواز میں کہا حالانکہ اس نے ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا۔ “زندگی سادہ ہونی چاہیے۔”

میں نے ایک خالی ڈبہ کھولا اور سامان نکالنا شروع کیا۔
پوسٹر پھاڑ دیے۔
پرانے کپڑے ڈونیٹ کے ڈھیر میں ڈال دیے۔
كَھلے ہوئے کاغذ سلیقے سے تہہ کر کے پھینک دیے۔

میں جس رفتار سے چیزیں ہٹا رہا تھا، ایسا لگ رہا تھا جیسے میرے ہاتھ خود مختار ہو گئے ہوں۔ جیسے اندر کوئی نئی خواہش جنم لے چکی ہو۔ اور عجیب طور پر میں اسی جذبے پر فخر بھی محسوس کر رہا تھا۔

صفائی کرتے کرتے میں تھک گیا اور صوفے پر گر پڑا۔
آنکھوں کے سامنے تہہ خانے کی ٹمٹماتی بلب پھر ابھر آئی۔

اس کی مدھم سی روشنی میں ارسلان کا چہرہ یاد آیا—
وہ لمحہ جب اس نے پہلی بار پلک جھپکی تھی۔
وہ پلک… جیسے کسی فیصلہ کن قبولیت کا نشان ہو۔

میرا دل ایک لمحے کو دھڑکنا بھول گیا۔

ارسلان نے تب پلک چرا کر جھپکی تھی جب میں نے پہلی بار قیمت بتائی تھی۔
اور دوسری بار…
جب میں نے کہا تھا:
“آپ مالا مال ہونے والے ہیں۔”

مجھے لگا جیسے اندر کہیں کوئی بند دروازہ آہستہ سے کھل رہا ہو۔
جیسے کچھ میرے اندر منتقل ہوا ہو۔
یا شاید… میں وہاں کچھ چھوڑ آیا ہوں۔

میں گہری سانس لے کر اٹھا۔
“یہ سب تھکن ہے، پریشر ہے، بس۔”

مگر پھر میرا فون بجا—
میسج تھا: Unknown Number

صرف تین الفاظ:
"Tour. Not over."

میری ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہر دوڑ گئی۔

میں نے لرزتی انگلیوں سے ونڈو سے باہر جھانکا—
نیچے گلی مکمل اندھیرے میں ڈوبی تھی۔
اور اسی اندھیرے میں…
ایک حیران کن قد کا سایہ کھڑا تھا۔

لمبا۔
بالکل ساکن۔
بالکل ویسا… جیسا نیول کے جنگل میں تھا۔

اور اس کے ہاتھ میں—
کوئی چیز لٹک رہی تھی۔

چابیوں کا چھن چھناتا گچھا۔

وہ پہلی بار جب ٹکرائے تھے تو اس کی انگلیوں میں پھولوں کی خوشبو سمٹی ہوئی تھی، اور وہ کسی اور کی مسکراہٹ کو اگلی منزل تک پہنچانے میں مصروف تھا۔ مگر پھولوں کی خوشبو اور مصروف ہاتھوں کے بیچ جو خاموش لمحہ رُکا تھا، وہ دونوں کے دلوں میں کہیں بہت دیر تک ٹھہرا رہا۔ وہ لمحہ ایسا تھا جیسے وقت چند ثانیوں کو رک کر خود بھی انہیں دیکھنے لگا ہو۔

اس نے خود کو سنبھالنے کے لیے آنکھیں جھکائیں، مگر پھر بھی اسے محسوس ہوا جیسے اس کی نظر اُس پر ٹھہر گئی ہو۔ اس کا دل دھیرے سے دھڑکا، جیسے برسوں بعد کسی بھولی ہوئی دھُن نے کانوں میں آہستہ سے جنم لیا ہو۔ وہ صبح سے مسکرا مسکرا کر تھک چکی تھی، مگر اس ایک نظر نے اس کی تھکن میں بھی ایک نرمی سی بھر دی تھی۔

تقریب ختم ہوئی تو لوگ رخصت ہونے لگے۔ وہ ابھی بھی اپنے ہاتھ میں پکڑے پھولوں کو بے دھیانی سے سہلا رہی تھی جب پیچھے سے ایک آہٹ ہوئی۔ وہ مُڑا تو کچھ کہنا چاہتا تھا، مگر الفاظ شاید اس کے ساتھ نہیں تھے۔ اس نے بس اتنا پوچھا کہ کیا پھول بھاری تو نہیں ہو گئے؟ وہ بے اختیار ہنس دی۔ وہ ہنسی شفاف تھی، جیسے کسی جھرنے کے کنارے پانی کی پہلی چھلنگ۔

گفتگو مختصر تھی، مگر دونوں کے دل میں بہت کچھ کہے بغیر رہ گیا۔

اگلے چند ہفتوں میں زندگی اپنی معمولی رفتار سے چلتی رہی، مگر وہ ایک مختصر ملاقات جیسے دل کے کسی گوشے میں روشنی بن کر ٹکی رہی۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ وہ پھر کب ملیں گے، یا ملیں بھی یا نہیں۔ مگر کبھی کبھی جب وہ کسی پھول کی خوشبو کو چھوتی، تو وہ لمحہ خود بخود لوٹ آتا۔

پھر ایک دن اس نے اسے اچانک ایک چھوٹے سے بازار میں دیکھا۔ وہ پرانی کتابوں کے اسٹال پر جھکی صفحے پلٹ رہی تھی، اور وہ کچھ فاصلے پر کھڑا جیسے وقت کے دھاگے کو پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ چل کر اس کے پاس آیا اور آہستہ سے پوچھا، "کیا اس بار بھی پھول بھاری ہو گئے ہیں، یا آج کتابوں کی باری ہے؟"

وہ لمحہ ایسا تھا جیسے دونوں نے یکدم ایک دوسرے کو پہچان لیا ہو۔ اس نے کتاب بند کی، اس کے چہرے پر وہی ہلکی سی جھجک تھی، جو پہلی ملاقات میں تھی۔ مگر اس بار اس جھجک کے پیچھے ایک سکون چھپا تھا۔ جیسے دل نے کسی دیرینہ انتظار پر ہاتھ رکھ کر کہہ دیا ہو—ہاں، یہی وہ شخص ہے جسے دوبارہ آنا ہی تھا۔

وہ دونوں بازار کی گلیوں سے گزرتے ہوئے بہت دیر تک چلتے رہے۔ کبھی خاموشی ان کے درمیان بیٹھ جاتی، کبھی کوئی چھوٹا سا جملہ اس خاموشی کو مسکرا کر توڑ دیتا۔ انہیں باتیں کرنے کی جلدی نہیں تھی، نہ ایک دوسرے کو جاننے کی کوئی بے چینی۔ بس ساتھ چلنا ہی کافی تھا، جیسے کوئی پرانی کہانی دوبارہ کھلنے لگی ہو۔

جب وہ اس شام جدا ہوئے تو دونوں کے دل میں ایک نرم سا یقین تھا—یہ کہانی یہیں ختم نہیں ہوگی۔

اگلے دن، اگلے ہفتے، اگلے مہینے… ان کے درمیان ملاقاتوں کا ایک خوشگوار سلسلہ چل نکلا۔ کبھی وہ پھول اٹھائے ہوتی، کبھی کتابیں، کبھی خالی ہاتھ، مگر ہر بار وہ اسے دیکھ کر وہی پہلی سی نیم مسکراہٹ ضرور کرتی۔ اور وہ ہر بار محسوس کرتا کہ شاید وہ کسی عام دن میں چھپی ہوئی غیر معمولی خوشی ہے۔

وہ جب ساتھ ہوتے تو وقت جیسے اپنے قدم ہلکے کر لیتا۔ وہ دونوں گھنٹوں چلتے رہتے، باتیں کرتے رہتے، اور کبھی کبھی محض خاموش رہ کر ایک دوسرے کی موجودگی کو محسوس کرتے رہتے۔ اور ہر ملاقات کے بعد وہ دونوں جانتے تھے کہ وہ اگلی ملاقات کا انتظار کریں گے، چاہے زبان سے کچھ بھی نہ کہیں۔

پھر ایک دن اُس نے پھولوں کا گلدستہ تھام رکھّا تھا—مگر اس بار یہ پھول کسی تقریب کے لیے نہیں تھے۔ یہ پھول ایک نئے شروع ہونے والے سفر کی خوشبو لیے کھڑے تھے۔ وہ ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ بولا، "اس بار میں کسی اور کو نہیں، تمہیں خود اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہوں۔"

وہ لمحہ بہت دھیرے سے اس کے دل میں اترا۔ جیسے کوئی خواب ہتھیلی پر آ کر بیٹھ گیا ہو۔

پھولوں کی خوشبو، کتابوں کی خموشی اور دلوں کی دھڑکنوں کے درمیان، ان دونوں نے وہ سفر شروع کیا جو اس دن کی پہلی مختصر ملاقات سے خاموشی سے چل رہا تھا۔

وقت نے پھر ایک بار اپنی رفتار تھوڑی سی کم کی—اور ان کے درمیان محبت کی خوشبو پھیل گئی۔

ان دونوں کا سفر آہستہ آہستہ اپنے رنگ گہرا کرتا گیا۔ ہر دن میں نرمی تھی، ہر ملاقات میں ایک چھوٹا سا تحفہ، ہر بات میں وہ اطمینان جسے الفاظ کی ضرورت نہیں پڑتی۔ کبھی وہ ایک دوسرے کو چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہنسا دیتے، کبھی کسی پرانی یاد پر خاموش ہو جاتے، اور کبھی بس ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر سمجھ جاتے کہ دل میں کیا چل رہا ہے۔

ایک شام وہ دونوں شہر کے کنارے ایک پرانے پل پر کھڑے تھے۔ نیچے بہتا پانی سورج کی آخری روشنیوں کو سنبھالے دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہا تھا۔ ہوا میں ہلکی سی ٹھنڈ تھی اور اس کے ہاتھ میں وہ پھول تھے جو ہمیشہ کسی نہ کسی معنی کے ساتھ جڑے رہتے تھے۔

اس نے اسے دیکھا، جیسے وہ فیصلہ جسے دل بہت پہلے کر چکا تھا، اب زبان تک آ رہا ہو۔ وہ دھیرے سے بولا، "ہماری پہلی ملاقات میں تم پھول لیے کھڑی تھیں… اور میں نے ایک لمحے کے لیے چاہا تھا کہ وقت بس وہیں رک جائے۔ شاید اسی دن دل نے کہہ دیا تھا کہ تم مجھے دوبارہ ملنے والی ہو۔"

وہ خاموشی سے اسے دیکھتی رہی۔ اس کی آنکھوں میں وہی پہلی سی جھجک تھی، مگر اس بار اس جھجک میں ایک مکمل ہونے کا احساس بھی شامل تھا۔

اس نے پھول اسے تھماتے ہوئے کہا، "اگر تم چاہو تو… یہ سفر یہیں ختم نہیں ہوتا۔ یہ تو بس آغاز ہے۔"

اس نے پھول لے لیے۔ ہتھیلیوں میں لپٹے ہوئے پھولوں کی خوشبو نے جیسے دونوں کے بیچ کی خاموشی پر مہر لگا دی۔ وہ ایک لمحہ دیر تک اسے دیکھتی رہی، پھر آہستہ سے سر ہلایا—وہ ہلکا سا اقرار جو کبھی کبھی لفظوں کا محتاج نہیں ہوتا۔

اس پل کے نیچے بہتا پانی اور اوپر ڈھلتا آسمان دونوں گواہ تھے کہ دو دلوں نے ایک ساتھ چلنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

اس دن سے ان کی زندگی ایک نئی ترتیب میں بدل گئی۔ چھوٹے چھوٹے لمحے، مشترکہ مسکراہٹیں، روزمرہ کی تھکن میں ایک دوسرے کا سہارا… یہ سب ان کے درمیان ایک نئی کہانی بُننے لگے۔ وہ لمبے راستے اب تنہا نہیں لگتے تھے، اور راتیں اب مختصر ہو جاتی تھیں کیونکہ صبح ایک دوسرے کے انتظار میں ہوتی تھی۔

وقت گزرتا گیا، مگر ان کا ساتھ کسی نرم خوشبو کی طرح گھر بھر میں پھیلتا چلا گیا۔ وہ پھول جو کبھی پہلی ملاقات کا حصہ تھے، اب ایک مکمل کہانی کا نشان بن گئے—ایک ایسی کہانی جو بار بار سنائی جا سکتی ہے، ہر بار نئے احساس کے ساتھ۔

اور یوں ان دونوں کا سفر ایک خوبصورت انجام پر نہیں، بلکہ ایک نئے آغاز پر پہنچا—جہاں محبت رکتی نہیں، بس سانس لیتی ہے، اور زندگی کے ہر موڑ پر اپنا مہک بھرا لمس چھوڑتی جاتی ہے۔


Post a Comment for "’’خالی گھر کا خریدار‘‘"