جنگل کی گھنی سبز چھاؤں کے نیچے، جہاں سورج کی دھوپ شاخوں کے درمیان سے کھیلتی تھی اور ہر طرف خوشبوئیں بکھری ہوئی تھیں، ایک چھوٹی سی جھونپڑی تھی۔ اس جھونپڑی میں رہتی تھی نانی زریں، جو عمر کے آخری حصے میں بھی اپنی عقل و فراست اور جادوئی ہنر کے لیے مشہور تھیں۔ ان کے سنہرے بال سفید بالوں میں ملے ہوئے تھے اور آنکھوں میں زندگی کی ہر خوشی اور غم کی جھلک صاف دکھائی دیتی تھی۔ وہ جنگل کے ہر درخت، ہر پودا، اور ہر چھوٹے جانور کو پہچانتی تھیں اور ان کے ساتھ گفتگو کر سکتی تھیں۔
ایک دن جھونپڑی کی دہلیز پر دستک ہوئی۔ نانی زریں نے جھانکا تو ایک چھوٹی بچی کھڑی تھی، جس کے سنہری بال چمک رہے تھے، گلابی لباس پہنے ہوئے تھی، اور اس کے سینے پر جواہرات سے سجا بروزچ لگا ہوا تھا۔ وہ شہزادی لگ رہی تھی اور اس کی آنکھوں میں عزم اور ضد کی جھلک نمایاں تھی۔
نانی زریں نے اسے غور سے دیکھا اور پوچھا، "چھوٹی بچی، یہاں کیوں آئی ہو؟"
"میں تمہاری شاگرد بننا چاہتی ہوں!" بچی نے بڑے اعتماد سے کہا۔ نانی زریں نے مسکرا کر سر ہلایا۔ "جادو محض ورد یا چھڑی نہیں، بلکہ دل اور دماغ کا کام ہے۔ تمہیں سب سے پہلے صبر اور تحمل سیکھنا ہوگا۔"
بچی نے سر ہلایا اور کہا، "میں تیار ہوں، نانی زریں۔ مجھے سکھاؤ!" یہ پہلا لمحہ تھا جب چھوٹی بی بی مہر اور نانی زریں کی ملاقات ہوئی، اور جنگل میں ایک نیا جادو جنم لینے والا تھا۔
نانی زریں نے بی بی مہر کو جھونپڑی کے اندر بلایا۔ وہاں چھوٹے برتن، جڑی بوٹیاں، اور کتابوں کے ڈھیر پڑے تھے۔ ہر کتاب میں علم اور جادو چھپا ہوا تھا۔ پہلی کلاس میں، نانی زریں نے بی بی مہر کو جنگل کی زبان سکھائی، پرندوں کی آوازیں، ہوا کا رخ اور درختوں کے اشارے، سب ایک معنی رکھتے تھے۔ بی بی مہر نے پہلی بار پرندوں سے بات کی اور پرندے حیرت سے اسے دیکھ رہے تھے، جیسے وہ بھی اس چھوٹی لڑکی کی جادوئی طاقت سے متأثر ہوئے ہوں۔
چند دن بعد، نانی زریں نے بی بی مہر کو سکھایا کہ کس طرح جنگل کی حفاظت کے لیے چھوٹے چھوٹے ورد استعمال کیے جاتے ہیں۔ بی بی مہر نے پہلی بار اپنی چھڑی پکڑی اور ایک حفاظتی ورد پڑھا۔ روشنی کے چھوٹے چھوٹے ہلکے رنگ ہوا میں پھیل گئے اور پرندوں کی چہچہاہٹ نے ماحول کو جادوئی بنا دیا۔ بی بی مہر نے پہلی بار محسوس کیا کہ جادو صرف طاقت نہیں بلکہ ذمہ داری بھی ہے۔
چند ہفتوں بعد، ایک طوفانی رات آئی۔ تیز ہوا، بارش، اور بجلی کی گرج سے جنگل خوفزدہ ہو گیا۔ بی بی مہر نے پہلے کبھی اتنی خوفناک رات نہیں دیکھی تھی۔ نانی زریں نے اسے قریب بلایا اور کہا، "ابھی تمہیں سیکھنا ہے کہ حقیقی جادو دل کی ہمت میں ہوتا ہے۔"
بی بی مہر نے سر ہلایا اور دونوں نے جنگل کی حفاظت کے لیے ایک مضبوط ورد پڑھنا شروع کیا۔ روشنی، آواز اور ہوا کے ساتھ ورد نے درختوں کو سہارا دیا اور جانوروں کو محفوظ رکھا۔ پہلی بار بی بی مہر نے سمجھا کہ جادو محض ورد نہیں، بلکہ دل سے ہونے والا عمل ہے۔
وقت گزرتا گیا اور بی بی مہر جنگل کے چھوٹے چھوٹے راز سیکھنے لگی۔ نانی زریں نے اسے پرندوں کی زبان، پودوں کی حفاظت، اور جڑی بوٹیوں کے چھوٹے چھوٹے ہنر سکھائے۔ بی بی مہر جنگل کی ہر آواز، ہر رنگ اور ہر حرکت میں چھپی حقیقت کو سمجھنے لگی۔ وہ اپنے چھوٹے ہاتھوں سے چھڑی کو ہلانے اور پھولوں کی مدد سے روشنی پیدا کرنے میں ماہر ہو گئی تھی۔
ایک دن، جنگل کے کنارے ایک عجیب سی چمک دیکھنے کو ملی۔ بی بی مہر نے نانی زریں سے پوچھا، "نانی زریں، یہ کیا ہے؟"
نانی زریں نے کہا، "یہ جادو کا نشان ہے، جو اس بات کی اطلاع دیتا ہے کہ جنگل میں کوئی غیر معمولی موجودگی ہے۔" بی بی مہر نے ہمت جمع کی اور نانی زریں کے ساتھ اس چمک کی طرف گئی۔ وہاں ایک چھوٹا سا جن موجود تھا، جو پریشان لگ رہا تھا۔ بی بی مہر نے اپنی چھڑی سے روشنی بھیجی اور جن کو محفوظ مقام پر لے گئی۔ نانی زریں نے خوش ہو کر کہا، "یہ پہلی بار ہے کہ تم نے بغیر کسی ہدایت کے خود فیصلہ کیا اور جادو کا استعمال کیا۔ تم واقعی بڑی ہو گئی ہو۔"
بی بی مہر کی ہمت بڑھتی گئی۔ اس نے جنگل کے ہر چھوٹے چھوٹے جاندار کی حفاظت کی اور نانی زریں کے سکھائے ہر سبق کو عملی طور پر اپنایا۔ لیکن نانی زریں نے اسے ایک اور سبق دیا، "بی بی مہر، جادو میں طاقت صرف تمہیں نہیں، دوسروں کو بھی فائدہ پہنچانی چاہیے۔ اپنے اردگرد کی دنیا کو بہتر بنانے کے لیے جادو کرو۔"
بی بی مہر نے سمجھا کہ جادو کا اصل مقصد لوگوں اور جنگل کی حفاظت کرنا ہے۔ اس نے نہ صرف جانوروں کی حفاظت کی بلکہ جنگل کے اندر چھپے چھوٹے جادوئی درختوں اور پودوں کو بھی بچایا۔ ہر دن اس کی طاقت میں اضافہ ہوتا گیا، لیکن وہ کبھی غرور نہیں کرتی تھی، کیونکہ نانی زریں نے اسے سکھایا تھا کہ اصل طاقت عاجزی میں ہے۔
ایک دن جنگل میں ایک بڑی آندھی آئی۔ درخت گرے، پرندے اڑ گئے اور جانور خوفزدہ ہو گئے۔ بی بی مہر نے اپنی چھڑی سے روشنی اور حفاظتی ورد پڑھا، لیکن وہ اکیلی کافی نہیں تھی۔ نانی زریں نے اسے قریب بلایا اور کہا، "ہمیں ایک ساتھ کام کرنا ہوگا۔ طاقت کا صحیح استعمال تبھی ممکن ہے جب دل صاف ہو اور نیت خالص ہو۔"
دونوں نے مل کر جنگل کو محفوظ بنایا۔ آندھی کے بعد، بی بی مہر نے پہلی بار محسوس کیا کہ جادو صرف اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے بھی ہونا چاہیے۔ نانی زریں نے کہا، "تم واقعی جنگل کی حفاظت کی قابل ہو گئی ہو، لیکن یاد رکھو، علم کبھی ختم نہیں ہوتا۔ ہر دن تمہیں کچھ نہ کچھ نیا سیکھنا ہوگا۔"
وقت گزرتا گیا۔ بی بی مہر کی شہرت جنگل کے ہر کونے میں پھیل گئی۔ جانور اسے پہچانتے، پرندے اس کے آنے پر خوش ہوتے، اور درختوں کی شاخیں اس کے لیے جھک جاتیں۔ نانی زریں نے اسے سکھایا کہ طاقت کا صحیح استعمال کرنے والے ہی حقیقی جادوگر ہوتے ہیں۔
بی بی مہر نے اپنے سیکھے ہوئے علم کو دیگر چھوٹے جادوگر بچوں کے ساتھ بانٹنا شروع کیا۔ اس نے جنگل میں چھوٹے چھوٹے سبق دیے، انہیں پرندوں اور پودوں کی زبان سکھائی اور جانوروں کے ساتھ بات چیت کرنے کی تربیت دی۔ وہ خود ایک استاد بن گئی، جس کی نانی زریں بھی تعریف کرتی تھیں۔
ایک دن جنگل کے بیچوں بیچ، ایک خطرناک دشمن آیا۔ وہ ایک جادوگر تھا جو جنگل کو نقصان پہنچانا چاہتا تھا۔ بی بی مہر نے اپنی پوری طاقت استعمال کی، نانی زریں کی مدد سے اس دشمن کو شکست دی، اور جنگل کو بچایا۔ اس لمحے، بی بی مہر نے سمجھا کہ جادو صرف طاقت نہیں، بلکہ محبت، ہمت، اور دوسروں کی مدد کرنے کا نام ہے۔
وقت گزرتا گیا۔ بی بی مہر بڑی ہو گئی، لیکن نانی زریں ہمیشہ اس کے ساتھ رہیں، اسے سبق دیتی رہیں اور اس کی طاقت میں اضافہ کرتی رہیں۔ جنگل کی ہر پتی، ہر جانور اور ہر درخت بی بی مہر کی محبت اور حفاظت کا شکر ادا کرتے تھے۔
آخرکار بی بی مہر نے اپنی زندگی کا مقصد سمجھ لیا: دوسروں کی مدد کرنا، جنگل کی حفاظت کرنا، اور نانی زریں کے سکھائے ہوئے ہر سبق کو عملی طور پر اپنانا۔ وہ نہ صرف جنگل کی بچی، بلکہ حقیقی جادوگر بن گئی تھی، جس کی داستان ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔

Post a Comment for "“جنگل کی نانی اور ضدی بچی”"