میں بھیڑ کی طرف دیکھ رہا تھا اور اپنی زندگی کا سب سے بڑا جھوٹ بول رہا تھا۔
"احمد حیدر میری زندگی کا سب سے شاندار آدمی تھا۔" میں اسے جانتا تک نہیں تھا۔ ایک گھنٹہ پہلے تک، مجھے اس کا نام بھی معلوم نہیں تھا۔ اگر اس کا چہرہ تابوت کے قریب نہ لگا ہوتا، تو میں یہ بھی نہیں جانتا ہوتا کہ وہ شخص کیسا دکھتا ہے۔ اب وہ نہیں رہا، تو یہ حقیقت بھی بے معنی لگتی تھی۔
میں نے سانسیں سنبھالیں اور الفاظ بہنے دیے۔ ہر لفظ کے ساتھ میری کہانی جھوٹ کی ایک نئی پرت میں بدل رہی تھی۔ لوگ میرے سامنے بیٹھے، کچھ آنکھیں بھر کر، کچھ سانسیں روک کر، اور کچھ خاموشی سے میری بات سن رہے تھے۔ میں نے جھوٹ کے اس کھیل میں قدم رکھا، ایک ایسا کھیل جو میں نے پہلے بھی کھیلا تھا، مگر کبھی اتنے لوگوں کے سامنے نہیں۔
"جب میں نے اسے پہلی بار دیکھا، تو میں نے سوچا کہ وہ واقعی بدمعاش ہے۔"
پیچھے سے کچھ لوگ سانس روک کر ہنسنے لگے۔ آگے بیٹھے لوگ آنکھیں گڑائے، کچھ ناراض، کچھ حیرت میں۔ میں نے محسوس کیا کہ کچھ لوگ انتظار کر رہے ہیں کہ یہ جھوٹ کب ٹوٹے گا۔
"وہ گروپ کے سیشنز میں بیٹھا رہتا، بغیر کسی ردعمل کے، جیسے لکڑی کا ایک ٹکڑا۔"
یہ گروپ کبھی وجود میں نہیں تھا، لیکن اب میرے ذہن میں احمد حیدر کی شخصیت اتنی حقیقی محسوس ہو رہی تھی جیسے وہ واقعی وہاں موجود ہو۔
"ایک دن، جب زینب، ایک اور شریک، اپنی کہانی سن رہی تھی، احمد اچانک اٹھا، اسے گلے لگایا، اور بچوں کی طرح رونے لگا۔ تب مجھے یقین ہوا کہ اس کا دل بھی تھا۔ تب سے وہ گروپ کا روحانی ستون بن گیا۔"
لوگ جھک کر سننے لگے، کچھ اپنے سینوں کو پکڑ کر، ہر لفظ پر ٹوٹ پڑے۔ میں نے محسوس کیا کہ میرا جھوٹ اب حقیقی جذبات میں بدل رہا ہے۔
"اس نے ہمیں چھوٹے نوٹس دینا شروع کیے، پچھلے سیشن کی ہماری باتوں کو یاد دلانے کے لیے—ہماری ہمت کو جگانے کے لیے۔ ایک دن، اس نے بچوں کی رنگ بھرنے کی کتابیں لائیں، ‘ہمارے اندر کے بچے کے لیے’۔ یہ اتنا مضحکہ خیز تھا کہ ہم نے فیصلہ کیا کہ اس کا چہرہ رنگیں، اور حیرت انگیز طور پر اس نے اجازت دے دی۔"
لوگ ہنسنے لگے، کچھ اپنی آنکھیں صاف کرنے لگے، کچھ خاموشی سے اس منظر کو محسوس کر رہے تھے۔
"جب میں نے سیشن میں واپس آنا چھوڑ دیا، احمد نے میری پسندیدہ ‘وہیل کی آوازیں’ کی پلے لسٹ بنا کر گھر پر بجائی۔ میں نے اسے دروازے پر دیکھا تو پاگل ہو گیا۔ وہ بغیر کچھ کہے اندر آیا، موسیقی چلائی، اور ہم خاموشی سے وہیل کی آوازیں سنتے رہے۔"
عورتیں اور مرد آنسو بہا رہے تھے، کچھ اپنے ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر، اور کچھ خاموشی سے روتے ہوئے، جیسے میری ہر جھوٹی بات میں سچائی کی جھلک دیکھ رہے ہوں۔
میں نے محسوس کیا کہ جھوٹ بھی کبھی کبھی حقیقت سے قریب لگنے لگتا ہے، اور میں خود بھی اس جھوٹ کے رنگ میں رنگنے لگا۔
"وہ اکثر کہتا، ‘ہم کبھی نہیں مرتے، اگر ہم صرف اڑتے رہیں۔’"
میں نے مسکرا کر کہا، "میں نے اس کی بات پر آنکھیں ماری، کون نہیں کرتا؟"
کمرے میں ہلکی سی ہنسی گونجی۔ لوگ اب میرا ہر لفظ سانس روک کر سن رہے تھے، کچھ روتے ہوئے، کچھ آنکھیں پونچھتے ہوئے، اور کچھ خاموشی سے جھوٹ کے جادو میں کھو گئے۔
"جب میں نے پوچھا کہ کیا وہ سمجھتا ہے کہ ہم ویمپائر ہیں جو ہمیشہ زندہ رہیں گے؟ اس نے بس ایک نظر دی—نہ تصدیق کی، نہ تردید۔"
میں نے سوچا، شاید وہ واقعی خود کو ویمپائر سمجھتا تھا، اور شاید اسی لیے چھت سے اڑا۔
کمرے میں خاموشی چھا گئی۔ لوگ میری باتوں پر جھجک رہے تھے، کچھ حیرت میں، کچھ جذبات کے بہاؤ میں۔ لیکن میں جانتا تھا کہ جھوٹ اب اتنا مضبوط ہو چکا ہے کہ کوئی بھی اسے توڑ نہیں سکتا۔
"احمد حیدر نے ہمیں امید دی، جب اس کے پاس خود نہیں تھی۔ وہ ہمیں جوڑ کر رکھا، یہاں تک کہ وہ خود ٹوٹ رہا تھا۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں، اس کی موجودگی نے زندگیاں بچائیں—میری یقینی طور پر بچ گئی۔"
میں نے سر جھکایا، آنکھوں میں نمی، اور دل میں ایک عجیب سکون محسوس کیا۔
لوگ کھلے عام روتے ہوئے، ایک دوسرے میں جھک کر، اور کچھ خاموشی سے آنکھیں صاف کرتے ہوئے مجھے دیکھ رہے تھے۔ میں نے خود کو بھی رکتا محسوس کیا، آنکھوں کے کناروں پر آنسو، لیکن دل میں ایک عجب سکون تھا۔
اس کے بعد میں نے خود کو سنبھالا اور لوگوں کے درمیان سے باہر نکلنے کی کوشش کی۔ باہر نکلتے ہی میں نے دیکھا کہ احمد حیدر کی والدہ، جو ایک ضعیف عورت تھیں، میرے قریب آئیں اور پوچھا، "بیٹا، تمہیں کیسے پتہ چلا کہ وہ ایسا کرتا تھا؟"
میں نے جھوٹ کے بہاؤ کو برقرار رکھا، "میں نے اس کے ساتھ وقت گزارا۔ میں نے اس کی زندگی کے وہ لمحات دیکھے جو ہم سب نے نہیں دیکھے۔"
وہ مسکرائیں، اور آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ میں نے محسوس کیا کہ میرا جھوٹ اتنا حقیقی لگ رہا تھا کہ لوگ اس پر یقین کرنے لگے۔
میں نے سوچا کہ شاید یہ میری زندگی کا سب سے خطرناک کھیل ہے، مگر میں اس کا حصہ بن چکا تھا۔ ہر لفظ، ہر جھوٹ، ایک نیا رنگ اختیار کر رہا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ یہ جھوٹ اب حقیقت کے قریب تر ہے۔
میں نے احمد حیدر کی فرضی زندگی کے مزید مناظر سنانے شروع کیے: کیسے وہ بچوں کے لیے کہانیاں لکھتا، کیسے وہ اپنے دوستوں کے دکھ کو محسوس کرتا، کیسے وہ خاموشی میں امید دیتا۔ ہر منظر اتنا تفصیلی تھا کہ لوگ آنکھیں پونچھتے ہوئے میری ہر بات کو جذب کرنے لگے۔
میں نے بتایا کہ کیسے احمد حیدر نے ایک دن ایک بچی کو، جو بہت ڈری ہوئی تھی، اپنے کندھے پر بٹھایا اور اسے تسلی دی، اور کیسے وہ ہمیشہ سب کے لیے ایک روشن چراغ رہا۔
ہر قصہ، ہر جھوٹ، میری زندگی کا حصہ بن گیا۔ میں نے محسوس کیا کہ میں خود بھی احمد حیدر کے اس فرضی کردار میں کھو رہا ہوں۔
دن گزر گئے، میں نے اپنی کہانی جاری رکھی، احمد حیدر کی فرضی شخصیت کے تمام پہلوؤں کو بیان کیا، اس کی مہربانی، ہمت، اور انسانیت کو اتنی تفصیل سے پیش کیا کہ لوگ یقین کرنے لگے کہ وہ واقعی وہاں موجود تھا۔
آخرکار میں نے کہا، "احمد حیدر شاید اب ہماری آنکھوں کے سامنے نہیں ہے، مگر وہ ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہے گا۔"
لوگ اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکے، آنسو بہتے رہے، کچھ لوگ گلے لگ کر روتے رہے، اور کچھ خاموشی سے اپنے دل میں احمد حیدر کے اس فرضی کردار کو یاد کرنے لگے۔
میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا کہ لوگ میری باتوں پر یقین کر چکے ہیں۔ میں نے اپنے اندر ایک عجیب سکون محسوس کیا، کیونکہ جھوٹ نے حقیقت کی شکل اختیار کر لی تھی۔
یہ کہانی اس حد تک جاری رہی، احمد حیدر کی فرضی زندگی کے تمام پہلوؤں، گروپ کے سیشنز، دوستوں اور خاندان کے لمحات، اور مرکزی کردار کی اندرونی کشمکش کو اتنی تفصیل سے بیان کیا گیا کہ قاری پوری کہانی میں کھو جائے۔

Post a Comment for ""وہ آدمی جو کبھی نہ ملا""