ہاسٹل کی دیوار پر ایک اکیلا پوسٹر چپکا تھا:
“انٹرکلچرل بک کلب۔ ہمارے ساتھ شامل ہوں! ہر اتوار شام چھ بجے۔”
میں نے حال ہی میں یہاں رہائش اختیار کی تھی۔ کتابیں پڑھنے کی عادت پرانی تھی، اس لیے یہ مجھے لوگوں سے ملنے کا ایک اچھا بہانہ لگا۔ اتوار کی شام میں نے اپنی موجودہ کتاب اٹھائی اور عام کمرے کی طرف چل دی۔ چند طالب علم پہلے ہی وہاں بیٹھے تھے، سب کے ہاتھوں میں چائے کے کپ تھے حالانکہ گرمی ابھی باقی تھی۔
“ہیلو، میں لینا ہوں۔ کیا یہ بک کلب ہی ہے؟”
ایک لڑکی نے مسکرا کر جواب دیا، “ہاں! اندر آؤ۔ چائے لو؟”
اس نے میرا جواب سنے بغیر چائے کا کپ تھمایا اور قریب رکھی کرسی کی طرف اشارہ کیا۔ میرے دائیں طرف ایک لڑکا بیٹھا تھا، سیاہ شرٹ میں، جس پر کسی بینڈ کا لوگو چھپا تھا۔ اس کے سامنے چند پرانے چمڑے کے جلد والے رنگین کتابوں کا ڈھیر رکھا تھا، جن پر نہ عنوان تھا نہ مصنف کا نام۔
میٹنگ ختم ہونے پر وہی لڑکا میرے پاس آیا۔
“لینا، ہے نا؟”
“ہاں، تمہارا نام؟”
“ارین۔” اس نے مسکرا کر ایک سبز کتاب میری طرف بڑھائی۔
“یہ لو۔ تمہیں پسند آئے گی۔”
میں کچھ پوچھ پاتی، اس سے پہلے وہ جا چکا تھا۔ کتاب پر کوئی نام نہ چھپا تھا، صرف پہلے صفحے پر خوبصورت لکھائی میں ایک تاریخ لکھی تھی: “۱۸ جولائی ۱۸۸۶ء”
یہ مجھے چونکا گئی۔ میں نے کتاب اپنے کمرے میں لا کر کھولی۔ پہلا صفحہ پڑھتے ہی لگا جیسے وقت تھم گیا ہو۔
“لکھنؤ، ۱۸ جولائی ۱۸۸۶
پیارے اے،
کل ہم نے دل کے خانوں کی بات کی تھی۔ کیسا عجیب ہے کہ وہ عضو جسے ہم محبت کی علامت کہتے ہیں، دراصل ایک منظم مشین ہے — تقسیم شدہ، محتاط، ہر جذبہ اپنے حصے میں قید۔
میں جانتا ہوں کہ مجھے یہ نہیں لکھنا چاہیے۔ تم مہربان ہو، مگر میں تمہارے والد کا شاگرد ہوں، اور بس۔ پھر بھی تمہاری آواز میرے ذہن میں گونجتی رہتی ہے، جیسے خاموش کمرے میں صفحہ پلٹنے کی آواز۔
یہ احساس بےجا ہے، مگر برقرار ہے۔
پیچھے کے باغ میں ایک درخت ہے، جہاں ہوا کبھی کبھار اپنا راستہ بنا لیتی ہے۔ اگر تم کوئی نئی کتاب لینا چاہو تو میں وہیں چھوڑ دوں گا۔
ہمیشہ خیال میں،
وی۔”
میں نے سانس روکی۔ اے کوئی بھی ہو سکتا تھا، مگر دل نے فوراً مان لیا کہ یہ کہانی کچھ خاص ہے۔ اگلا صفحہ ایک ڈائری تھی، کسی لڑکی کی تحریر۔
“لکھنؤ، ۱۸ جولائی ۱۸۸۶
پیارے ڈائری،
میں آج پھر اسے دیکھ بیٹھی۔ باپ کے دفتر سے جھانکا تو وہ راہداری سے گزرا۔ دھوپ میں بھی اس کی چال میں سکون تھا۔ پیچھے کے درخت کے پاس مجھے اس کا خط ملا۔ ایک کتاب کے اندر چھپا ہوا۔ اتنا مختصر، مگر دل کو جیسے بدل کر رکھ دینے والا۔ میں جانتی ہوں کہ یہ ممکن نہیں، مگر پھر بھی دل ہے کہ مانتا نہیں۔”
میں نے کتاب بند کی، جیسے کوئی راز بند کر دیا ہو۔ اگلے دن سے میں انہی خطوط میں کھو گئی۔ وہ لڑکی، شاید کسی انگریز خاندان کی بیٹی، اپنے باپ کے ہندوستانی شاگرد سے محبت کرنے لگی تھی۔
اگلی تحریر میں لکھا تھا:
“آج رات باپ کے مہمان آئیں گے۔ سرکاری دعوت۔ میں صرف چائے ڈالنے تک محدود ہوں، مگر وہ بھی وہاں ہوگا۔ میں نے خود کو آئینے میں دیکھا اور سوچا، کیا وہ مجھے پہچان لے گا؟ میرا دل میرے اختیار میں نہیں۔”
میں نے کتاب پر ہاتھ رکھا۔ اُس نے آخرکار اپنا نام بتایا تھا — “آرین”۔
لینا اور آرین۔ انیسویں صدی کے لکھنؤ میں چھپا ایک ناممکن عشق۔
اگلا خط آرین کا تھا۔
“میرے پیارے،
گزشتہ شب تمہیں دیکھ کر دل کو قرار نہ رہا۔ تمہارا سکون، تمہارا وقار، اور تمہارے سوال جو تم کتابوں کے حاشیوں میں لکھ چھوڑتی ہو — سب میری نیند چرا لیتے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ یہ ناممکن ہے۔ تمہارے والد میرے استاد ہیں، میرا مستقبل انہی کے ہاتھ میں ہے۔ مگر میں تمہیں دیکھ کر یہ سب بھول جاتا ہوں۔ تم وہ روشنی ہو جو میری راتوں کو نرم بناتی ہے۔ اگر دنیا مہربان ہوتی، تو میں تمہارا ہاتھ سب کے سامنے تھام لیتا۔ تمہیں اپنی کہہ کر خاموشی سے جیتا۔”
میں نے کتاب بند کر دی۔ جیسے کوئی دھڑکن رک گئی ہو۔ ان دونوں کے الفاظ زندہ محسوس ہو رہے تھے۔
اگلے ہفتے میں پھر بک کلب گئی۔ وہی کمرا، وہی لڑکا، وہی مسکراہٹ۔
میں نے دھیرے سے کہا، “تم نے مجھے ایک کہانی دی ہے۔ وہ بہت ذاتی لگتی ہے۔”
اس نے سر جھکا کر ہلکی آواز میں کہا، “شاید ہر کہانی ذاتی ہوتی ہے۔ ہم سب اپنی ہی کہانی تلاش کرتے ہیں۔”
اس نے پھر ایک سرخ کتاب میرے سامنے رکھی۔ “یہ اگلی پڑھنا۔”
میں نے حیرت سے کہا، “لیکن پہلی ابھی ختم نہیں ہوئی۔”
وہ مسکرا دیا، “کچھ کہانیاں ختم نہیں ہوتیں، وہ گونجتی رہتی ہیں۔”
میں نے سبز کتاب بند کر دی۔ کچھ کہانیاں واقعی ختم نہیں ہوتیں۔ وہ صرف دل میں ٹھہر جاتی ہیں۔
کافی شاپ میں بیٹھے ہوئے میں نے آخری صفحہ چھوا۔ کسی نے پوچھا، “اچھی کتاب ہے؟”
میں نے سر اٹھایا۔ ایک سادہ لباس میں لڑکا سامنے کھڑا تھا، چہرے پر نرم مسکراہٹ۔
“ہاں، خوبصورت مگر اداس ہے۔”
وہ بیٹھ گیا۔ “سب سے اچھی وہی ہوتی ہیں جنہیں ختم کرنے سے ڈر لگے۔”
پھر اس نے کہا، “ویسے، میرا نام آرین ہے۔”
میرے دل نے ایک لمحے کو دھڑکنا چھوڑ دیا۔ میں مسکرا دی، آہستہ، جیسے برسوں پرانا خواب لوٹ آیا ہو۔
“اور تمہارا؟” اس نے پوچھا۔
میں نے دھیرے سے جواب دیا، “لینا۔ میرا نام لینا ہے۔”
Post a Comment for ""خاموش گونج""