Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

ایک لمحے کی خاموشی

 

پہلی بار جب انوشہ کی سلیم سے ملاقات ہوئی، وہ ہاتھوں میں پھولوں کا گلدستہ تھامے کھڑی تھی، اور وہ دلہن کو منڈپ تک لے جا رہا تھا۔ انوشہ نے محسوس کیا کہ سلیم کی نظریں اس پر ٹک گئی ہیں۔ اس کے گال اپنے ہاتھوں کے گلابی پھولوں جیسے سرخ ہو گئے۔ وہ چاہ کر بھی زیادہ مسکرا نہ سکی، بس وہی ہلکی سی شرمیلی مسکراہٹ جو ساری صبح سے اس کے چہرے پر جمی ہوئی تھی۔

شادی کا ہال پھولوں اور روشنیوں سے بھرا ہوا تھا۔ ہر طرف ہنسی کی آوازیں، گپ شپ، موسیقی اور خوشبو ملی ہوئی تھی۔ مگر انوشہ کے دل میں ایک عجیب سا سکوت تھا۔ وہ خود سے کہہ رہی تھی، "یہ صرف ایک تقریب ہے، احمد کی خوشی ہے، اور تم صرف ایک مہمان ہو۔" مگر دل جانتا تھا، یہ اتنا آسان نہیں۔

دلہن کے کسی قریبی شخص سے نظریں ملانا مناسب نہیں ہوتا — سب جانتے ہیں۔ مگر سلیم کوئی قریبی نہیں تھا۔ وہ تو دلہن کے والد کی جگہ کھڑا ایک دوست تھا، شاید کوئی پرانا ساتھی یا کسی دفتر کا جاننے والا۔ انوشہ نے سوچا، شاید قسمت نے اسے آج کسی نئے مقصد سے اس کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔

انوشہ خود بھی دلہن کو زیادہ نہیں جانتی تھی۔ وہ تو یہاں احمد کی خاطر آئی تھی — احمد، جو کبھی اس کے دل کے قریب رہا تھا۔ کبھی وہ دونوں اتنے قریب تھے کہ ایک دوسرے کے دل کے حال لفظوں کے بغیر بھی سمجھ لیتے۔ ان کے درمیان کبھی اعتراف نہیں ہوا، مگر احساس ہمیشہ رہا۔

کالج کے دنوں میں احمد اس کے لیے وہ شخص تھا جو ہر وقت موجود ہوتا۔ جب وہ ہنستی، وہ ساتھ ہنستا؛ جب وہ اداس ہوتی، وہ چپ چاپ اس کے پاس بیٹھ جاتا۔ ان کے درمیان ایک ان کہی بات ہمیشہ بہتی رہتی، جیسے ہوا میں نمی — محسوس تو ہوتی، مگر پکڑی نہیں جا سکتی۔

وقت گزرا۔ احمد کی زندگی آگے بڑھ گئی۔ اس نے مہر سے منگنی کر لی — ایک سنجیدہ، خوبصورت اور نرم لہجے والی لڑکی، جس میں گھریلو سکون کی خوشبو تھی۔ احمد نے خوشی سے بتایا، اور انوشہ نے ہنستے ہوئے مبارک دی، مگر اس رات وہ دیر تک چھت کو دیکھتی رہی۔

اب وہ اسی شادی میں موجود تھی، بھورے رنگ کے بھدے لباس میں، جو جیسے خاص اس کے لیے چنا گیا تھا تاکہ وہ نمایاں نہ ہو۔ باقی سب سہیلیاں چمکدار لباسوں میں تھیں، اور وہ خود کو ان سب کے درمیان کسی مدھم رنگ کے سائے کی طرح محسوس کر رہی تھی۔

سلیم بار بار اس کی طرف دیکھتا۔ وہ شخص عجیب طور پر پرسکون تھا، جیسے اس کے آس پاس کی دنیا کی ہلچل سے وہ آزاد ہو۔ اس کی مسکراہٹ میں ایک نرمی تھی، اور اس کی آنکھوں میں کسی پرانی اداسی کی جھلک۔ انوشہ کو اس کی خاموشی میں کشش محسوس ہوئی۔

پھر اچانک، جب قاری نکاح کے الفاظ پڑھ رہا تھا، انوشہ کا دل زور سے دھڑکنے لگا۔ وہ سمجھ گئی — وہ احمد سے محبت کرتی تھی۔ شاید ہمیشہ کرتی رہی تھی، مگر اب احساس بہت دیر سے جاگا تھا۔

گرمی، خوشبو اور جذبات کے بوجھ تلے وہ خود کو سنبھال نہ سکی۔ اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ سب کچھ دھندلا سا محسوس ہونے لگا، اور پھر وہ زمین پر گرنے ہی والی تھی کہ سلیم نے لپک کر اسے تھام لیا۔

شادی کا شور پیچھے رہ گیا۔ وہ اسے باہر لے آیا۔ درخت کے سائے تلے، نرم ہوا میں۔ کسی نے پانی کا گلاس تھمایا۔ سلیم نے اس کے سر کے نیچے ہاتھ رکھا اور بولا،
"آرام سے، سانس لو۔"

انوشہ نے چند گھونٹ پئے۔ اس کی سانس بحال ہوئی۔ اس کے چہرے پر پسینے کی لکیریں تھیں، مگر ہوا کی ٹھنڈک نے سب دھو دیا۔ اس نے پہلی بار سلیم کو غور سے دیکھا — وہ شخص جو اجنبی ہوتے ہوئے بھی جان پہچانا لگا۔

"اب ٹھیک ہو؟" سلیم نے نرمی سے پوچھا۔

"ہاں، بس تھوڑی دیر کے لیے چکر آ گیا تھا۔"

"شادیوں میں ایسا ہو جاتا ہے۔ خاص طور پر جب دل... بوجھل ہو۔"

انوشہ نے چونک کر اسے دیکھا۔
"آپ نے کیسے جانا؟"

سلیم مسکرایا۔ "یہ سب چہروں پر لکھا ہوتا ہے۔"

چند لمحوں کی خاموشی میں صرف درختوں کے پتوں کی سرسراہٹ تھی۔ انوشہ نے گہری سانس لی اور بولی،
"میں کبھی نہیں سمجھ سکی کہ کچھ احساسات اتنے دیر سے کیوں جاگتے ہیں۔"

سلیم نے آہستہ سے کہا،
"شاید اس لیے کہ جب وہ جاگتے ہیں تو ہم سنبھلنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔"

وہ دونوں کچھ دیر یونہی بیٹھے رہے، ہوا چلتی رہی، اور کہیں دور شادی کی موسیقی مدھم سی گونج رہی تھی۔

پھر سلیم نے نرمی سے ہاتھ بڑھایا۔
"میرا نام سلیم ہے۔"

انوشہ نے مسکرا کر جواب دیا،
"اور میں انوشہ۔"

اس لمحے کی خاموشی میں ایک نیا آغاز چھپا تھا — جیسے زندگی نے کسی تھمی ہوئی سانس کو دوبارہ بہنے دیا ہو۔ شاید قسمت نے آج اسے گرانے کے لیے نہیں، کسی نئی کہانی میں جگانے کے لیے چنا تھا۔

Post a Comment for "ایک لمحے کی خاموشی"